Maktaba Wahhabi

177 - 462
’’فأما أن یکون لہ من البغوي إجازۃ شاملۃ بمرویاتہ کلھا فیکون متصلاً أو لا یکون کذلک فیکون وجادۃ وھو قد تحقق صحۃ ذلک عنہ علی أن التدلیس بعد ثلاثمائۃ یقل جدا قال الحاکم لا أعرف في المتأخرین من یذکر بہ إلا أبا بکر محمد بن محمد بن سلیمان الباغندي۔ واللّٰه أعلم انتھیٰ‘‘ الغرض امام دارقطنی نے امام بغوی رحمہ اللہ سے روایات بصورتِ اجازہ یا وجادہ لی ہوں یا پھر اپنی مرویات کے درمیان طریقِ اخذ کی وضاحت ہو کسی صورت میں بھی اسے تدلیس نہیں کہہ سکتے۔ واللّٰه تعالیٰ أعلم اس فن پر لکھنے کا آغاز: فنِ جرح و تعدیل کی ابتدا اگرچہ صحابہ کرام] کے آخری دور سے ہو چکی تھی، لیکن اس کی تدوین کا آغاز دوسری صدی سے شروع ہوا اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے دور تک باقی رہا۔ اس دور میں اہلِ علم و فضل نے اس پر متعدد کتابیں لکھیں، فنی اعتبار سے سب سے پہلے اس فن پر کلام کرنے والے امام شعبہ بن الحجاج ہیں اور سب سے پہلے اس فن پر امام یحییٰ بن سعید القطان کی کتاب کا نام لیا گیا ہے۔ ان کے بعد ان کے تلامذہ نے ان ہی کی راہ اختیار کی۔ علامہ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’أول من جمع في ذلک الإمام یحيٰ بن سعید القطان وتکلم فیہ بعدہ تلامذتہ یحيٰ بن معین وعلي بن المدیني وأحمد بن حنبل وعمرو بن علي الفلاس وأبو خیثمۃ وتلامذتہم کأبي زرعۃ وأبي حاتم والبخاري ومسلم وأبي إسحاق الجوزجاني والنسائي وابن خزیمۃ والترمذي
Flag Counter