Maktaba Wahhabi

221 - 462
کیا۔ ’’علمِ حدیث میں پاک و ہند کا حصہ‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر محمد اسحاق صاحب نے انگریزی میں ایک مقالہ لکھا ہے جس کا ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور نے اردو ترجمہ شائع کیا ہے اور مترجم جناب شاہد حسین صاحب رزاقی ہیں۔ ڈاکٹر موصوف علامہ سندھی کے ترجمے میں لکھتے ہیں: ’’محمد حیات اپنے والد ابو الحسن سندھی کی وفات کے بعد دار الشفا کے صدر معلم ہوئے۔‘‘ اصل مقالے تک تو ہماری رسائی نہیں ہو سکی، نامعلوم علامہ ابو الحسن سندھی رحمہ اللہ کو علامہ حیات سندھی رحمہ اللہ کا والد قرار دینا ڈاکٹر صاحب موصوف کی غلطی ہے یا مترجم کی، اس کے علاوہ بھی ترجمہ شدہ کتاب میں کافی اغلاط ہیں جو ادارہ ثقافت کی ثقاہت کے منافی ہیں۔ جلالتِ شان: اہلِ علم نے بالاتفاق علامہ سندھی رحمہ اللہ کے علم و فضل، ورع و تقویٰ کا اعتراف کیا ہے اور ان کی تصانیف کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ شاگرد سے بڑھ کر استاد کی خوبیوں یا کمزوریوں سے کون واقف ہو سکتا ہے۔ ان کے تلامذہ نے اپنے لائق استاد کے متعلق جس عقیدت کا اظہار کیا، وہ آج بھی ان کی تصانیف میں دیکھا جا سکتا ہے۔ علامہ محمد فاخر زائر إلٰہ آبادی (م۱۱۶۴ھ) کی عقیدت کیشی ملاحظہ فرمائیں، لکھتے ہیں: باد برروئے صفحۂ دوراں محفل آرائے حلقۂ انساں شیخ الاسلام عصرِ علامہ در فنون حدیث فہامہ مُو شگافِ وقائق ایماں راز دان حقائق ایماں رستہ از حبسِ ربقہ تقلید بستہ براجتہاد رائے مزید
Flag Counter