Maktaba Wahhabi

261 - 462
آپ کے نانا مرحوم شیخ گوہر علی کے دربار میں معلم تھے۔ تقریباً ایک سال بعد آپ نگرنہسہ تشریف لے گئے۔ مولانا ابراہیم رحمہ اللہ سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے فرمایا: قرآن مجید کی کوئی سورت سناؤ تو آپ نے سورۃ ﴿وَالضُّحَى ﴾ پڑھ کر سنائی۔ مولانا مرحوم نے اس کے معانی و مطالب سنانا شروع کر دیے۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ اس وقت اتباعِ سنت کا شوق دل میں جاگزیں ہو گیا۔ اسی دوران میں ابتدائی فارسی کتب مولوی سید راحت حسین بتھوی سے پڑھیں اور بعض مختصراتِ نحو اورمعقولات ایک ماہر عالم مولوی عبدالحکیم صاحب شیخ پوری سے پڑھیں۔ اور اپنے ماموں مولانا نور محمد صاحب سے بھی بعض صرف و نحو کی کتابوں کا درس لیا۔ (اہلِ حدیث و ترجمان) ابتدائی فنون سے فراغت کے بعد ۱۲۸۸ھ میں عمدۃ المعقول والمنقول حاوی فروع و اصول مولانا لطف علی بہاری (م ۱۲۹۶ھ) سے شرفِ تلمذ حاصل کیا اور ان سے شرح جامی، قطبی، میبذی شرح وقایہ، اصول الشاشی، نور الانوار، کنز الدقائق وغیرہ متوسطات پڑھیں اور حدیث میں جامع ترمذی کی بھی قراء ت تحقیق و تنقیح سے کی۔ مولانا موصوف صوبہ بہار کی معروف علمی شخصیت تھی۔ معقول و منقول اور اصول و فروع میں مہارتِ تامہ رکھتے تھے۔ شیخ الکل حضرت میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ مولانا فضل حق رحمہ اللہ خیر آبادی اور مفتی صدر الدین جیسے اکابر سے شرفِ تلمذ حاصل تھا۔ اسفارِ علمیہ: الغرض ۱۲۹۱ھ تک اپنے مسکن ڈیانواں ہی کے اہلِ علم و فضل سے استفادہ کرتے رہے۔ تحصیلِ علم کا شوق دل میں موجزن تھا۔ اسی بنا پر دوسرے مشائخ کی خدمت میں جانے پر مجبور ہوئے۔ چنانچہ ۱۲۹۲ھ میں لکھنؤ کا قصد کیا۔ وہاں پہنچ کر
Flag Counter