Maktaba Wahhabi

335 - 462
اس میں کوئی تردد تھا، اس لیے حاشیہ میں اسے لکھا ہے۔ پھر یہاں علامہ زیلعی رحمہ اللہ کی رفعتِ شان اور ’’نقلِ صادق‘‘ کا بہانہ بھی نہایت کمزور ہے۔ جب کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بالصراحت تین کتابوں میں اس پورے جملے کا حاشیہ میں ہونے کا ذکر کیا ہے۔ ہم اگر یہاں علامہ زیلعی رحمہ اللہ کے متعلق ’’نقلِ صادق‘‘ کا جائزہ شروع کر دیں تو بات لمبی ہو جائے گی اور یہ بحث بھی سرِدست ہمارے موضوع سے خارج ہے۔ لیکن کیا اس پر بھی غور کیا کہ ’’کلھم ثقات‘‘ کے الفاظ کو متن میں شمار کرنے اور ’’والصواب موقوف‘‘ کو حاشیہ کے الفاظ باور کرانے میں کیا راز ہے؟ تو یقین جانیے، اس کا باعث محض مسلکی حمیت ہے، کیوں کہ اس حدیث میں تیمم کے لیے دو ضربات کا ثبوت ہے۔ جیسا کہ احناف کا مسلک ہے اور یہی مسلکی حمیت مستدرک کے نسخہ میں تحریف کا باعث ہے۔ اللہ کریم ہماری اور ان بزرگوں کی لغزشوں کو معاف فرمائے۔ تنبیہ: سنن دارقطنی کا شمار چونکہ تیسرے طبقے کی کتبِ احادیث میں ہوتا ہے، جس میں ضعیف اور منکر روایات بھی پائی جاتی ہیں۔ اس لیے اس کے رجال و اسناد پر بھی محدث ڈیانوی نے خصوصی توجہ دی ہے۔ رجال کی تحقیق و اسانید کی تعلیل و تصحیح میں مبداء فیض سے جو ذوق محدث ڈیانوی رحمہ اللہ کو ملا تھا۔ اس کے اعتراف کے باوجود سہو و نسیان سے ہم انھیں مبرا خیال نہیں کرتے اور نہ ہی اس سلسلے میں ان کے فیصلے کو ہر جگہ کافی و شافی سمجھتے ہیں۔ آخر وہ تھے تو انسان ہی اور بالخصوص اس صحرا نوردی میں کس کا قدم ڈگمگانے سے محفوظ رہا ہے، مثلاً باب النیہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی (حدیث: ۲) کے متعلق فرماتے ہیں: ’’ ھذا إسناد لیس فیہ مجروح‘‘ (۱/۵۱)۔ حالانکہ اس میں ’’الحارث بن غسان‘‘ راوی مجہول ہے عقیلی نے اسے ضعفاء
Flag Counter