Maktaba Wahhabi

348 - 462
نے نہ صرف اصولِ حدیث کی کتابوں سے اس کے جواز پر حوالے ذکر کیے ہیں، بلکہ اکابر علما و اعیان کے اقوال جن میں ’’اجازۃ عامہ‘‘ کا ثبوت ہے نقل کر دیے ہیں، پھر آخر میں حضرت میاں صاحب رحمہ اللہ سے تین سوال کیے ہیں: 1. کیا آپ اجازہ عام کے قائل ہیں؟ 2. اگر قائل ہیں تو کیا آپ اپنی جمیع مرویات کی اجازتِ عام بخشیں گے؟ 3. اگر قائل ہیں تو اپنے ہم عصر علما پر احسان فرمائیں اور اجازہ عام مرحمت فرمائیں، جس طرح کہ آپ کو آپ کے معاصر شیوخ سے اجازہ حاصل ہے۔ یہ مکتوب مبارک ۱۵ صفحات پر مشتمل ہے ،جو کہ پانچ دیگر رسائل کے ساتھ ۱۳۱۴ھ میں مطبع انصاری دہلی سے طبع ہوا اور علامہ قاضی ابو اسماعیل یوسف حسین المحمدی نے تاریخ طباعت فارسی میں لکھی جو کہ اس مجموعہ رسائل کے آخر (ص: ۸۹) میں مطبوع ہے اس مکتوب کا جواب حضرت میاں صاحب نے ۱۳۱۳ھ میں دیا اور علمائے معاصرین کو عموماً اور حضرت ڈیانوی رحمہ اللہ اور شیخ نور احمد ڈیانوی کو خصوصاً اپنی مرویات کی عام اجازت دی یہ جواب بھی ’’المکتوب اللطیف‘‘ کے ساتھ ہی مطبوع ہے۔ حیاۃ المحدث کے مرتب نے لکھا ہے کہ یہ مکتوب حضرت ڈیانوی کے ہاتھ کا لکھا ہوا خدا بخش پٹنہ لائبریری میں محفوظ ہے۔ علامہ عبدالحی الکتانی رحمہ اللہ نے بھی فہرس الفہارس والاثبات (۲/۵۹۲، ۵۹۳) میں اس مکتوب کا تعارف کروایا ہے۔ 7. الکلام المبین في الجھر بالتأمین: یہ رسالہ آمین بالجہر کے مسئلے پر ہے، مولانا ڈیانوی نے ’’التعلیق المغنی‘‘ (۱/۳۳۸) میں خود اس کا ذکر کیا ہے۔ جو دراصل مولوی محمد علی مرزا پوری کے رسالے ’’القول المتین في إخفاء التامین‘‘ کا جواب ہے۔ یہ رسالہ ۴۴ صفحات پر
Flag Counter