Maktaba Wahhabi

350 - 462
تو اس کا جواب پھر مولانا بنارسی رحمہ اللہ نے ’’الرد لرد الرد‘‘ کے نام سے جو ۱۳۱۵ھ میں چھے صفحات پر مشتمل مطبع گردید سے طبع ہوا۔ اس موضوع پر دیگر اہلِ علم نے بھی رسائل لکھے ہیں، مگر استیعاب مقصود نہیں۔ 8. التحقیقات العلیٰ بإثبات فرضیۃ الجمعۃ فی القریٰ: بستیوں میں جمعہ جائز ہے یا نہیں؟ اس موضوع پر بھی ہمارے ہندی علما نے بڑی تفصیل سے بحث کی ہے اور فریقین نے ایک دوسرے کی تردید میں رسائل لکھے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے مولانا رشید احمد گنگوہی نے ایک رسالہ بنام ’’أوثق العریٰ في تحقیق جمعۃ فی القریٰ‘‘ لکھا۔ جس میں بستیوں میں جمعہ کے عدمِ وجوب کو مدلل کرنے کی کوشش کی۔ علمائے اہلِ حدیث کی طرف سے اس کے تین جواب شائع ہوئے: 1. ’’التجمیع فی القریٰ بنقض ما في اوثق العریٰ‘‘ مؤلفہ مولانا مولا بخش صاحب بڑاگری۔ 2. ’’کسر العریٰ بإقامۃ الجمعۃ فی القریٰ‘‘ مؤلفہ مولانا محمد سعید بنارسی۔ 3. ’’ھدایۃ الوریٰ إلیٰ إقامۃ الجمعۃ فی القریٰ‘‘ مؤلفہ مولانا محمد علی صاحب اعظم گڑھی۔ مؤخر الذکر دونوں رسالے طبع ہوئے تو شیخ الہند مولانا محمود حسن صدر مدرس دار العلوم دیوبند نے ان کا جواب ’’أحسن القریٰ في توضیح أوثق العریٰ‘‘ کے نام سے ان کا جواب دیا جو ۲۱۴ صفحات پر مشتمل ہے۔ جس کا جواب الجواب مولانا عبدالرحمان بقا غازی پوری مرحوم نے ’’سرمن یریٰ في بحث الجمعۃ في القریٰ‘‘ کے نام سے دو حصوں میں دیا جو ۱۳۲۷ھ میں مطبع سعید المطابع سے شائع
Flag Counter