Maktaba Wahhabi

354 - 462
(امرتسر) میں مولانا بنارسی نے اس کا ذکر ’’رسالہ در رد تعزیہ‘‘ کے نام سے کیا ہے۔ یہ رسالہ مطبع سعید المطابع بنارس سے ۲۰ بڑے صفحات میں شائع ہوا ہے، جس پر تاریخِ طبع موجود نہیں۔ جو دراصل ایک فتوے کا جواب ہے کہ کیا تعزیہ بنانا کبیرہ گناہ ہے یا نہیں؟ ایسا کام کرنے والے کے متعلق حکمِ شرعی کیا ہے اور اہلِ سنت میں جو حضرات اس فعلِ شنیع میں شریک ہوتے ہیں اس کے متعلق کیا حکم ہے۔ جس کا جواب ہمارے ہندی محدث نے بیس صفحات میں دیا ہے۔ پہلے انھوں نے تعزیہ کے بنانے کی ترکیب لکھی ہے کہ کس طرح کن چیزوں سے بنایا جاتا ہے، پھر اس کے متعلق حکم شرعی ذکر کیا ہے کہ یہ شرک اور بدعت ہے اور اس پر دلائل لائے ہیں اور آخر میں لکھا ہے کہ اہلِ سنت کو اصحابِ تعزیہ سے اجتناب لازم ہے، بلکہ ان پر انکار بھی ضروری ہے، ورنہ روزِ قیامت انہی اشرار لوگوں میں سے اٹھائے جائیں گے۔ اس رسالے پر متعدد علمائے کرام کے دستخط اور ان کے تائیدی بیان ہیں جن میں شیخ الکل حضرت میاں صاحب دہلوی، مولانا تلطف حسین صاحب، مولانا اشرف الحق ڈیانوی، مولانا نور محمد ڈیانوی، مولانا غلام رسول پنجابی، مولانا محمد حسین دہلوی، مولانا محمد سعید بنارسی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔[1] 12. فضل الباري شرح ثلاثیات البخاري: اس کا ذکر مولانا عبدالسلام مبارکپوری نے ’’سیرۃ البخاری‘‘ (ص: ۳۰۳) میں کیا ہے اور حاشیہ میں مولانا عبیداللہ رحمانی نے لکھا ہے کہ یہ کتاب مکمل نہیں ہو سکی۔ اس رسالے میں صحیح بخاری کی ان روایات کی شرح ہے، جنھیں امام بخاری نے تین واسطوں سے ذکر کیا ہے اور جو ’’ثلاثیات البخاري‘‘ کے نام سے مشہور ہیں، جن کی تعداد باعتبار مکررات کے ۲۲ اور حذفِ تکرار سے ۱۷ ہے۔ حیات المحدث کے فاضل
Flag Counter