Maktaba Wahhabi

389 - 462
ایک بار میں نے عرض کیا کہ کیا علامہ کشمیری سے آپ کی ملاقات ہے اور باہم کبھی گفتگو ہوئی ہے؟ تو فرمایا: نہیں، میری ان سے ملاقات نہیں، البتہ ایک بار وہ مولانا عبدالواحد صاحب کے ہاں جلسے پر آئے تھے، ان دنوں میرے پاس ایک عرب طالب علم پڑھتا تھا، وہ ان کے پاس جا کے عقیدہ کے بعض مسائل پر بحث کرنے لگا، جو اشکال اسے پیش آتا وہ مجھ سے پوچھ لیتا، یوں دو دن وہ ان کے پاس آتا جاتا رہا، بالآخر وہ انھیں یہ کہہ کے آگیا کہ ’’لو لا الشیخ محمد جوندلوي لأضللتني‘‘ کہ اگر شیخ محمد گوندلوی نہ ہوتے تو آپ مجھے گمراہ کر دیتے۔ ایک مفسر کی حیثیت سے: صحیح بخاری کے ساتھ ساتھ آپ سے قرآن مجید کے ترجمہ اور اس کے مفہوم و مطالب کو سمجھنے کا بھی موقعہ ملا۔ صحیح بخاری کے بعد دوسرا سبق یہی ہوتا تھا۔ چنانچہ ابتدا میں چند ایام قرآن پاک کے ’’کلام اللہ‘‘ ہونے پر تفصیلی بحث ہوتی۔ پھر قرآن اور حدیث میں فرق، علمِ تفسیر کی تعریف، طریقۂ تفسیر، تفسیر ماثور اور تفسیر بالرائے میں فرق، شرائطِ مفسر، مسئلہ نزولِ قرآن، معروف کتبِ تفاسیر کا تعارف ہوتا۔ راقم آثم کے استفسار پر کہ ’’کون سی تفسیر بہتر ہے؟‘‘ فرمایا: ’’مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ کی تفسیر عزیزی مکمل ہو جاتی تو وہ بے نظیر ہوتی۔‘‘ ہمارے حافظ صاحب جہاں ایک بلند پایہ محدث تھے، اس کے ساتھ ساتھ ایک عظیم مفسرِ قرآن بھی تھے۔ الجامعۃ السلفیہ کے دور میں اساتذہ کرام سے سنا تھا کہ حضرت نے الجامعہ میں صبح کی نماز کے بعد درسِ قرآن پاک کا آغاز فرمایا تو دس ماہ صرف سورت فاتحہ کی تفسیر و تعبیر میں گزر گئے۔ اور جب الجامعۃ الاسلامیہ گوجرانوالہ میں حضرت کی خدمتِ اقدس میں حاضر
Flag Counter