Maktaba Wahhabi

397 - 462
حضرت کے ان افکار سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اتحاد بین المسلمین کے لیے وہ اپنے اندر کتنا درد رکھتے تھے، انھیں نہ ملکی سطح پر افتراق و انتشار گوارا تھا اور نہ عالمِ اسلام میں تفریق و تشتت کو وہ پسند کرتے تھے، بلکہ وہ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: ’’مثل المؤمنین کمثل الجسد الواحد‘‘ کے مطابق عالمِ اسلام کو جسدِ واحد کی طرح دیکھنے کے خواہاں تھے۔ غفر اللّٰه لہ و رحم علیہ پیکرِ علم و عمل: حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ علم کے نہیں، بلکہ زبانِ سنت کے مطابق ’’علم نافع‘‘ کے امین تھے اور اہلِ اللہ کی اصطلاح کے مطابق صحیح معنوں میں عالم باللہ فی اللہ اور عارف باللہ تھے۔ زہد و تقویٰ میں زاہد مرتاض اور شب زندہ دار تھے، بلکہ میرے حضرت تو صحیح معنوں میں اس کا مصداق تھے ع یہی ہیں جن کے سونے کو فضیلت ہے عبادت پر انھیں کے اتقا پر ناز کرتی ہے مسلمانی! شبِ خیزی اور آہ سحرگاہی کا معمول تو آپ کے ہاں عنفوانِ شباب ہی سے تھا۔ اللہ والوں کے اوصاف میں شب بیداری تو صفتِ اول ہے۔ کیوں نہ ہو کہ ع جو ہو فرقت کی بے تابی تو یہ خوابِ گراں کیوں ہو بلکہ طالب علمی کے دور ہی سے شبِ بیداری کا معمول تھا۔ حضرت الاستاد مولانا محمد عبدہ صاحب مدظلہ نے حضرت مولانا محمد یونس دہلوی رحمہ اللہ کے واسطے سے فرمایا کہ حضرت حافظ صاحب جب دہلی پڑھتے تھے تو نمازِ تہجد چاندنی چوک سے گزر کر آگے مسجد میں جا کر ادا کرتے تھے۔ ایک شب یوں ہوا کہ آپ تشریف لے جا رہے تھے کہ پہرے دار نے وِسل
Flag Counter