Maktaba Wahhabi

430 - 462
نہیں دیکھا، البتہ فرماتے تھے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی تحقیق دیکھ کر کہ سو سال بعد بنا ہوا سونا اپنی حالت بدل دیتا ہے۔ میں نے یہ شغل چھوڑ دیا۔ اس بارے میں ان کے استاد جو گاہے بگاہے ان سے ملنے آتے، جن کا نام غالباً راؤ فرزند علی تھا۔ مولانا ان کی خدمت پیر و مرشد سے بڑھ کر کرتے تھے، جسے دیکھ کر ہمیں بھی حیرت ہوتی اور وہ بڑی بے تکلفی سے آپ کو عبداللہ کہہ کر پکارتے۔ اپنی اولاد سے بڑھ کر آپ سے محبت کرتے۔ مولانا کے ہاں وہ آتے، مولانا سے ملاقات نہ ہوتی تو آبدیدہ ہو جاتے اور واپس لوٹ جاتے۔ مولانا صاحب کو ان کی آمد کا علم ہوتا تو بلاتوقف ان کے پیچھے ان کے گھر پہنچ جاتے۔ دو تین دن وہاں قیام کرتے، جب اجازت ملتی، تب واپس تشریف لاتے۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ مولانا کی نگاہ میں اس فن میں ان کے استاد کی قدر و منزلت کیا تھی۔ کیمیا گری کے بارے میں ایک دو مرتبہ ان سے بڑی بے تکلفی سے بات ہوئی، مگر وہ فرمایا کرتے کہ یہ قدرتِ الٰہی کا راز ہے جس کو راز ہی رہنے دینا چاہیے۔ ان کے مجربات کی بیاض ان کے صاحبزادہ بلال صاحب کے پاس محفوظ ہے، جسے وہ حرزِ جاں بنائے ہوئے ہیں۔ سفرِ آخرت: حضرت مولانا مرحوم عموماً ہر سال جامعہ ستاریہ کراچی میں طلبا کے سالانہ امتحان اور تقریب بخاری شریف کے لیے تشریف لے جاتے۔ حسبِ معمول ۱۴۰۳ھ بمطابق ۱۹۸۳ء میں شعبان کے اوائل ہی میں کراچی تشریف لے گئے۔ جامعہ ستاریہ کے علاوہ جامعہ ابو بکر میں بھی بخاری شریف کی آخری حدیث کا درس دیا اور شعبان کے آخر ہی میں عمرہ کے لیے رختِ سفر باندھا اور حجاز مقدس تشریف لے گئے۔ انہی ایام میں
Flag Counter