Maktaba Wahhabi

445 - 462
تھے۔ وہاں جانے کے بعد دکان کا کاروبار گھاٹے کا سودا دکھائی دینے لگا تو بامرِ مجبوری ملتان سے واپس تشریف لے آئے۔ چند ماہ بعد حضرت ملک صاحب اور شیخ عبدالرشید صدیقی دوبارہ مولانا چیمہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ملتان چلنے پر مجبور کرنے لگے، مگر مولانا چیمہ مرحوم نے معذرت کی اور کاروباری مجبوریوں کی بنا پر گھر سے باہر رہنا مناسب نہ سمجھا اور یوں آپ دوبارہ ملتان تشریف نہ لے جا سکے۔ الجامعۃ السلفیہ کا قیام اور دیگر تدریسی خدمات: مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے زیرِ اہتمام ’’لائل پور‘‘ میں الجامعۃ السلفیہ کا قیام ہوا تو اس کا انتظام و انصرام عرصہ تک حضرت مولانا چیمہ مرحوم کے ذمے رہا۔ اربابِ جماعت سے یہ بات مخفی نہیں کہ الجامعۃ السلفیہ کی زمین کے حصول میں مرکزی کردار حضرت مولانا عبدالواحد صاحب امام جامع مسجد اہلِ حدیث امین پور بازار، حضرت مولانا عبیداللہ احرار اور حضرت مولانا چیمہ مرحوم کا تھا، پھر الجامعہ کی تعمیر و ترقی کے لیے جو کوششیں مؤخر الذکر دونوں حضرات نے کیں، انھیں کوئی بھی نظر انداز نہیں کر سکتا، آج کے الجامعہ اور اس کے اطراف و اکناف سے آنکھیں بند کر کے ۵۵ ؍۱۹۵۶ء کے دور میں جائیے اور سوچیے کہ ریت کے ٹیلے پر جہاں نہ چار دیواری تھی، نہ کوئی آبادی، اس عالم میں اللہ والوں کی بستی بسانے والے اور جنگل میں چراغ جلانے والے کون حضرات تھے؟ جماعت کے حالیہ سرمائے کو نہ دیکھیں، بلکہ سابقہ بے سروسامانی کو پیشِ نظر رکھ کر فیصلہ فرمائیں کہ قریہ قریہ بستی بستی جا کر جامعہ کو متعارف کرانے والے کون تھے؟ آج روشنیوں کے شہر کو نہ دیکھیں، چراغوں کی مدہم سی لو کو پیشِ نگاہ رکھ کر بتلائیں، اندھیروں میں اس کی نگہبانی کس نے کی؟ آج کی پختہ سڑکیں سب کو نظر آتی
Flag Counter