Maktaba Wahhabi

466 - 462
صلاحیتوں کی بنا پر مولانا غزنوی رحمہ اللہ ہمیشہ ان کے قدر دان رہے اور ان کی رائے کا احترام کرتے رہے۔ ان کے علاوہ حضرت مولانا محمد عبداللہ سے بھی وہ انتہائی متاثر تھے اور ان کے علم و فضل کا دل کی گہرائیوں سے اعتراف کرتے تھے۔ ادارۃ العلوم الاثریہ: یوں کرنے کو تو انھوں نے بہت سے دینی کام کیے، بہت سی مساجد تعمیر کرائیں، مدرسے بنوائے، ان کی سرپرستی کی اور بہر آئینہ ان کی تعمیر و ترقی میں ہمیشہ کوشش کی، مگر ان کی آخری یادگار ادارۃ العلوم الاثریہ فیصل آباد ہے، جو بحمداللہ اپنی کارکردگی، کتاب و سنت اور مسلک کی ترویج و اشاعت میں ملک اور بیرونِ ملک کسی تعارف کا محتاج نہیں اور اس سلسلے میں اس کی خدمات کسی بھی جامعہ سے کم نہیں۔ یہاں ادارے کا تعارف اور اس کی خدمات کا تذکرہ مطلوب نہیں، کیوں کہ یہ بجائے خود ایک مستقل عنوان ہے۔ تاہم اس سلسلے میں بعض باتیں ناگزیر ہیں اور مولانا مرحوم کی نسبت سے ان کا ذکر بھی ضروری ہے۔ چنانچہ ادارہ کا تاسیسی اجلاس ۱۷ نومبر ۱۹۶۸ء میں جامع مسجد اہلِ حدیث منٹگمری بازار میں منعقد ہوا۔ جس میں فیصل آباد کے علاوہ دوسرے شہروں سے بھی اصحاب علم و فضل نے شرکت کی۔ ادارے کا یہ نام متکلمِ اسلام حضرت مولانا محمد حنیف ندوی مرحوم نے تجویز کیا، اس کا آغاز جامع مسجد کریمیہ اہلِ حدیث جھال خانوآنہ میں ہوا اور کچھ عرصہ بعد اسے جامع مسجد اہلِ حدیث منٹگمری بازار میں منتقل کر دیا گیا۔ ادارے کے قیام کا مقصد فارغ التحصیل طلبا کی تربیت اور ان کے لیے حدیث میں تخصص کا ماحول مہیا کرنا، ایک بہترین لائبریری کا قیام، مسلکِ سلف کی ترجمانی اور حدیث و سنت کی ترویج و اشاعت کا اہتمام۔ نیز متخصصین حضرات کی اس انداز سے تربیت کہ وہ مستقبل قریب میں تصنیفی، تدریسی،
Flag Counter