Maktaba Wahhabi

60 - 462
جسے خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے یوں ذکر کیا ہے کہ امام دارقطنی رحمہ اللہ جب مصر پہنچے تو وہاں مسلم رحمہ اللہ بن عبید اللہ المظفری نامی مدینہ کے ایک علوی شیخ تھے۔ ان کے پاس کتاب الانساب خضر رحمہ اللہ بن داود و زبیر رحمہ اللہ بن بکار کی روایت سے تھی جو انساب کے علاوہ اشعار کا بھی مجموعہ تھا۔ مسلم رحمہ اللہ خود میدانِ فصاحت کے بڑے شہسوار اور عربی زبان کے ماہر تھے۔ لوگوں نے امام دارقطنی رحمہ اللہ سے سوال کیا کہ آپ ہمیں کتاب النسب پڑھ کر سنائیں۔ آپ نے اسے قبول فرمایا اور اس کے لیے ایک وقت مقرر کر دیا۔ وقت مقررہ پر بڑے اہتمام سے مجلس ترتیب دی گئی۔ مصر کے تمام اصحابِ علم و ادب اور فضل و کمال اس ارادے سے شریک ہوئے کہ دارقطنی رحمہ اللہ کی غلطیوں پر گرفت کی جائے، لیکن وہ اپنے ارادے میں ناکام رہے۔ ان کی حیرانی کی انتہا نہ رہی۔ شیخ علوی رحمہ اللہ سے آخر رہا نہ گیا تو بے ساختہ چِلا اٹھے۔ ’’وعربیۃ أیضاً‘‘ یعنی آپ کو عربی زبان پر بھی اتنی قدرت حاصل ہے۔[1] انھیں شعرا کے متعدد دیوان ازبر تھے۔ من جملہ دواوین کے ’’سید حمیری‘‘ کا دیوان بھی انھیں یاد تھا، اس لیے ان پر شیعہ ہونے کا الزام ہے۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ شیعہ تھے؟ یہ تو ابھی ہم نے ذکر کیا ہے کہ امام دارقطنی رحمہ اللہ ’’سید حمیری‘‘ کے دیوان کے حافظ تھے۔ اسی وجہ سے بعض تذکرہ نویسوں نے انھیں شیعیت کی طرف منسوب کیا ہے۔ سید حمیری جس کا نام اسماعیل بن محمد بن یزید کنیت ابو القاسم اور لقب سید تھا۔ مشہور ادبا میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ ابو عمر نے اس کا ذکر کرتے ہوئے ’’سید الشعراء‘‘ کے لقب سے یاد کیا ہے۔[2]
Flag Counter