Maktaba Wahhabi

70 - 462
’’قلت: بل واعجباً من المؤلف کیف یحطم علی رد الأحادیث الثابتۃ من غیر تثبت ولا تتبع‘‘[1] اس کے بعد انھوں نے پہلی روایت کے مختلف طرق ذکر کیے ہیں، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حافظ ابن جوزی رحمہ اللہ کا یہ الزام صحیح نہیں ہے۔ رہی دوسری روایت تو وہ سخت ضعیف ہے، حتی کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے موضوع قرار دیا ہے۔[2] علامہ سیوطی نے بھی اللآلیٔ المصنوعۃ (۲/۲۹۸،۲۹۹) میں اس کا کوئی دفاع نہیں کیا۔ امام دارقطنی کے حفظ و ضبط کی زندہ مثال ان کی ’’العلل‘‘ ہے، جسے انھوں نے زبانی املا کروایا تھا، جیسا کہ آیندہ اس کی تفصیل آئے گی۔ (ان شاء اللہ) ان کے تلمیذِ رشید امام حاکم رحمہ اللہ کے قول پر ہم اس عنوان کو ختم کرتے ہیں۔ ’’صار الدارقطني أوحد عصرہ فی الحفظ والفھم والورع‘‘[3] علمی دبدبہ: امام دارقطنی رحمہ اللہ کی قوتِ حافظہ کا اندازہ تو ہو چکا، یہی وجہ تھی کہ ان کی مجلس میں بڑے بڑے حفاظِ حدیث جن کے علم و فضل کا چرچا تھا وہ بھی ان کے سامنے بات کرنے سے کتراتے تھے۔ محمد بن عمر الداودی کا بیان ہے کہ ایک دفعہ امام دارقطنی رحمہ اللہ اور ابن شاہین رحمہ اللہ ایک مجلس میں بیٹھے تھے۔ لیکن ابن شاہین رحمہ اللہ پر یہ کیفیت طاری تھی کہ ابو الحسن
Flag Counter