Maktaba Wahhabi

77 - 462
رہی بات فضل و مرتبت کی تو جس کو رجال و سیر کی کتابوں کو کھنگالنے کی سعادت نصیب ہوئی ہو وہ اس بات کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ امام دارقطنی رحمہ اللہ جیسی شخصیت ان کے معاصرین میں مفقود تھی۔ بعض فنون میں اگرچہ کسی صاحب کو ان پر فضیلت دی جا سکتی ہے، لیکن باعتبار مجموعی تو ان کا پلہ تمام سے بھاری تھا۔ اگر کوئی ان میں مورخ ہے تو حدیث و رجا ل جیسے وسیع علم میں وہ ملکہ نہ حاصل کر سکا، جو امام موصوف کو میسر تھا۔ اور اگر کوئی حدیث و رجال کا ماہر ہے تو علل حدیث جیسے دقیق فن کی بھول بھلیوں سے وہ ناآشنا تھا۔ جیسا کہ آیندہ صفحات میں اس کی قدرے تفصیل آرہی ہے۔ ہم یہاں صرف ان کے چند ایک ممتاز معاصرین کی فہرست مع تراجم اختصار سے نقل کرتے ہوئے فیصلہ ناظرین پر چھوڑتے ہیں۔ عمر رحمہ اللہ بن احمد بن عثمان المعروف بابن شاہین (م ۳۸۵ھ / ۹۹۵ء): ان کی رفعتِ شان، قوتِ حافظہ اور کثرتِ تصانیف سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کا تذکرہ ’’الحافظ المفید المکثر محدث العراق‘‘ جیسے شاندار الفاظ سے شروع کیا ہے۔ ابن ابی الفوارس رحمہ اللہ ان کی تصانیف کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ثقۃ مأمون صنف مالم یصنفہ أحد‘‘[1] ان تمام اوصاف کے باوجود محمد بن عمر الداودی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ابن شاہین بقیۃ الشیوخ إلا أنہ کان لحاناً ولا یعرف الفقہ‘‘[2] اس کے برعکس فقہ میں جو مقام دارقطنی رحمہ اللہ کو حاصل تھا اس کا اندازہ خطیب
Flag Counter