Maktaba Wahhabi

176 - 303
کھانے پینے میں اعتدال اعتدال اور توازن ایک اچھی صفت ہے ، اس کے برعکس افراط اور تفریط دونوں ناپسندیدہ اور غیر محبوب خصلتیں ہیں، سلیم الطبع انسان زندگی کے ہر میدان میں میانہ روی اور اعتدال سے کام لیتا ہے اور معاشرہ بھی ایسے افراد کو عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھتا ہے ، جب کہ افراط وغلو یا تفریط وتقصیر میں مبتلا حضرات ہمیشہ لوگوں کی تنقید وتبصرے کا نشانہ بنے رہتے ہیں، اور اس وقار واحترام کے مستحق نہیں بن پاتے جو ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کو حاصل ہوتا ہے۔ کھانے پینے کا معاملہ اس کلیے سے مستثنی نہیں ہے ، مادہ پرستی ، حرص وہوس اور’ ھل مِن مَزید‘ والی ذہنیت رکھنے والے بہت سارے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو خوردونوش کے سلسلے میں کسی انضباط وتحدید کو فضول قرار دیتے ہیں اور اپنے شکم پر اس کی استطاعت سے کہیں زیادہ بوجھ ڈالتے ہیں، اس طرح کے عادی لوگوں میں کچھ تو ایسے ہوتے ہیں جو اپنے اور غیر کے کھانے میں امتیاز نہیں کرتے ، مگر اکثر ایسے ہوتے ہیں جو عموما دوسروں کے دسترخوان پر اس فارمولے کو اپناتے ہیں ، اس رویے کے پیچھے بسا اوقات یہ نظریہ کارفرما ہوتا ہے کہ بسیار خوری صحت کے لیے مفید ہوتی ہے۔اور عموما انسان محض اپنی لالچی طبیعت کی تسکین کے لیے ایسا کرتا ہے۔ طبی ، شرعی ، اقتصادی اور معاشرتی ہر اعتبار سے بسیار خوری مضر ہے، قرآن کریم کی آیت:’’ کُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا ‘‘ کے ذریعہ بندوں کو تنبیہ کر دی گئی ہے کہ کھاؤ پیو ضرور مگر حد سے تجاوز نہ کرو۔ حضرت مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ’’ آدمی پیٹ سے زیادہ برے کسی برتن کو نہیں بھرتا ، انسان کے لیے
Flag Counter