Maktaba Wahhabi

284 - 303
خیر خواہی اور اس کی کچھ مثالیں اس دنیا میں زندگی گذارنے والا کوئی بھی انسان دوسرے انسانوں سے الگ تھلگ رہ کر زندگی نہیں گزار سکتا، بلکہ ہر فرد کو قدم قدم پر دوسرے کی مدد، دوسرے سے لین دین اور دوسرے سے معاملہ کی ضرورت پڑتی ہے، یہ ایک انسانی اور سماجی ضرورت ہے جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔اس لیے ہر سلیم الطبع انسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں کو قدر اور عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اوران کے ساتھ ایمانداری اور سچائی و وفاداری کا معاملہ کرتا ہے، لیکن اسی انسانی معاشرے میں کچھ ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جنہیں صرف اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے ، دوسروں کے ساتھ ان کے تعامل کی نوعیت کا دارومدار ان کے اپنے مفاد کی تکمیل پر ہوتا ہے۔اگر اچھے معاملہ سے اپنا کام بنتا نظرآئے تو اچھا معاملہ کرتے ہیں، ورنہ اپنے فائدے کے حصول کے لیے دوسروں کے ساتھ دروغ گوئی، بے ایمانی، دھوکہ دھڑی اور فریب دہی کی تمام حدود کو پار کرنے میں انہیں ذرا بھی تامل نہیں ہوتا۔ شریعت اسلامیہ نے تمام انسانوں کو ایک ماں باپ(آدم وحوا)کی اولاد قرار دے کر ان کے آپسی رشتے اور اس کے تقاضوں کی طرف متوجہ کردیاہے۔پھر دائرہ اسلام میں داخل ہونے والوں کو اس انسانی رشتے کے ساتھ ایمانی رشتے سے بھی مربوط کردیا ہے اور﴿إنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ﴾(تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں)کے قرآنی اعلان کے ذریعہ رہتی دنیا تک کے مسلمانوں کو یہ ابدی پیغام سنا دیا ہے۔ اس اسلامی اخوت کے تقاضوں کی مختلف طریقوں سے وضاحت کی گئی ہے، چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’الدین النصیحۃ۔۔۔۔۔۔‘‘ یہ جملہ آپ نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا کہ ’دین نام ہے خیر خواہی کا‘ لوگوں نے سوال کیا کہ کس کی خیر خواہی؟ آپ نے فرمایا:اللہ کی، اس کی
Flag Counter