Maktaba Wahhabi

77 - 303
انہیں ہمارے حوالے کرو حق وباطل کی کشمکش نے جو کہ اکیسویں صدی عیسوی میں کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہے اہل حق کو ایک نازک موڑ پر لا کھڑا کردیا ہے ، لگتا یوں ہے کہ باطل طاقتوں نے حق کو فنا کے گھاٹ اتارنے کے لیے اپنے تن من دھن کی بازی اس عزم کے ساتھ لگادی ہے کہ اب ہمارے علاوہ کوئی اور اس روئے زمین پر نہیں رہے گا ، اس زمین پر بسنے والی ہر مخلوق یا تو ہماری ہر جائز وناجائز بات پر آمنا وصدقنا کا نعرہ لگائے یا اپنے وجود سے ہاتھ دھو نے کے لیے تیار رہے۔ یہ باطل پرست طاقتوں کا پرانا مزاج ہے ، یہ طاقتیں ہمیشہ اپنی مادی پوزیشن اور عقلی برتری کے زعم میں اسی انداز سے سوچتی ہیں ، اور اس سلسلے میں قدرت کی مصلحت یا دیگر اسباب ووجوہات کی بنا پر بسااوقات انہیں جزوی یا کلی کامیابی بھی مل جاتی ہے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ خالق ارض وسماء کی تدبیروں اوراس کے اہل حق کی حفاظت ونصرت کے وعدوں کے سامنے یہ طاقتیں اپنے تمام تر اسباب ووسائل کے باوجود عموما کف افسوس ہی ملتی ہیں اور انہیں ناکامی اور رسوائی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ چنانچہ اسلام کے ابتدائی دور میں مکہ معظمہ کے بت پرستوں نے اہل توحید پر جب اپنے مظالم کی انتہا کردی تو ہادی برحق جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مظلوموں اور بیکسوں کو مشورہ دیا کہ اپنے دین کی حفاظت کے لئے حبشہ کی طرف ہجرت کرجائیں کیوں کہ وہاں اصحمہ نجاشی شاہ حبش ایک عادل بادشاہ ہے، اس کے یہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا۔چنانچہ دو مرحلوں میں مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی جن کی مجموعی تعداد ایک سو سے زائد تھی۔ مکہ کے سر داروں کو جب یہ خبر ہوئی تو وہ سخت تشویش میں پڑے ، انہیں یہ ہرگز گوارا نہ تھا کہ مسلمان امن وسکون کی زندگی گزاریں اور اپنے دین پر آزادی کے ساتھ عمل کر نے کا انہیں موقع ملے۔چنانچہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ حبشہ کے بادشاہ کے پاس ایک وفد بھیج کر ان
Flag Counter