Maktaba Wahhabi

8 - 434
حاصل کر لی تھی۔ 1961ء میں آپ نے ایم اے فارسی اور ایم اے اردو کی ڈگریاں بھی حاصل کر لیں۔ پھر آپ مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کر کے سعودی عرب چلے گئے۔ ان دنوں مدینہ یونیورسٹی کا ابھی آغاز ہی تھا اس لئے اس کا تعلیمی معیار بہت بلند تھا اور بہت ہی ذہین و فطین طلباء کو داخلہ دیا جا رہا تھا۔ یہاں ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے کہ مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ شہید علامہ احسان الٰہی ظہیر نے خالصتا اپنی خدا داد صلاحیتوں ذہانت اور علمی برتری کی بناء پر حاصل کیا۔ اس میں کسی خاص فرد کی کوششوں کو دخل نہ تھا اور نہ ہی ان دنوں جامعہ سلفیہ کا جامعہ اسلامیہ سے معادلہ تھا۔ یہ تو بعد میں ہوا تھا۔ آپ نے چار سال کا عرصہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں گزارا اور مدینہ یونیورسٹی میں جو وقت گزارا وہ بڑا ہی بھر پور وقت تھا۔ آپ یونیورسٹی کے نمایاں ترین طالب علم کی حیثیت کے حامل تھے۔ مدینہ یونیورسٹی میں آپ نے صرف پڑھا ہی نہیں بلکہ طالب علم ہونے کے باوجود اپنے اساتذہ کی جگہ پڑھایا اور آپ کے ان لیکچرز میں آپ کے اساتذہ بھی شریک ہوئے جو کہ واقعتا ایک اعزاز کی بات ہے۔ اس کا ذکر آپ انہی کی زبانی سنئے۔ مدینہ یونیورسٹی کی تدریس کے دوران میں نے محسوس کیا کہ یونیورسٹی کے اساتذہ قادیانیت کے بارے میں بہت زیادہ نہیں جانتے تھے۔ یونیورسٹی کے نصاب میں ادیان و فرق کا موضوع بھی شامل تھا اور اس موضوع پر ہفتے میں ایک پیریڈ ہوا کرتا تھا۔ ادیان و فرق کے موضوع پر ہمارے عرب اساتذہ جب بھی لیکچر دیتے تو بعض فرقوں سے متعلق ان کی معلومات اس قدر کم ہوتی تھیں کہ وہ محض الفاظ کے سہارے اپنا لیکچر پورا کر دیتے تھے۔ ان فرقوں سے متعلق زیادہ لٹریچر چونکہ برصغیر پاک و ہند میں ہی چھپا تھا اور وہ بھی اردو زبان میں اس لئے یونیورسٹی کے عرب اساتذہ کی معلومات بطور خاص نہ ہونے کے برابر تھیں۔ میں نے قادیانیت پر عربی اخبارات و جرائد میں مضامین لکھنے کا سلسلہ یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلباء کی راہ نمائی کے لئے شروع کیا۔ دراصل میرے یہ مضامین میرے وہ لیکچر تھے جو میں نے اپنی کلاس کے طلباء کو اپنے اساتذہ کی جگہ دینے شروع کئے تھے۔ بعد میں آپ نے ان لیکچرز کو ایک کتاب کی صورت دے دی اور یہ کتاب آپ کے زمانہ طالب علمی میں ہی چھپ گئی۔ اس کے ٹائٹل پہ آپ کے نام کے ساتھ خریج الجامعتہ
Flag Counter