Maktaba Wahhabi

101 - 534
باہمی و حقیقی رضامندی سے متعلق چند اہم و ضروری مسائل پہلا مسئلہ:’’بیع المعاطاۃ‘‘ کا حکم بیعِ معاطاۃ سے مراد وہ بیع ہے کہ جس میں:خریدار سامان لیکر فروخت کنندہ(بیچنے والے) کو اُس کی قیمت ادا کردے بغیر زبانی کلامی بات کئے یا اس کے برعکس ہو ۔ یعنی فروخت کنندہ سامان خریدار کو دیتا ہے اور خریدار اس کی قیمت ادا کردیتا ہے۔اور اس دوران خریدار و فروخت کنندہ کے درمیان کوئی زبانی بات چیت نہیں ہوتی دونوں طرف سے یا کسی ایک کی طرف سے قیمت وسامان کا لین دین بغیر کسی زبانی ایجاب وقبول کے ہوتا ہے۔ اس مسئلہ کو یہاں اسی لئے ذکر کیا جارہا ہے کہ ہمارے یہاں بے شمار اس طرح کے سودے ہوتے ہیں جن میں مطلوبہ چیز کو دیکھااور پسند کیا جاتا ہے ، اس کی قیمت معلوم کی جاتی ہے اور بغیر کسی زبانی رضامندی کے قیمت ادا کرکے وہ مطلوبہ چیز لے لی جاتی ہے۔اور اس مسئلہ کی اہمیت اس صورت میں اور بڑھ جاتی ہے جب معاملہ اور سودا بڑے پیمانہ پر ہو ۔ کیا ایسی صورت میں بغیر کسی زبانی رضامندی کے طے پانے والا سودا شرعاً درست ہوگا یانہیں؟ مسئلہ مذکورہ میں اہلِ علم کے مابین اختلاف ہے۔ بعض نے اسے جائز قرار دیا ہے ، اور بعض نے یہ تفریق کی ہے کہ اگر معاملہ چھوٹے پیمانے پر ہو تو جائز ہے اور بڑے پیمانے پر ہو تو جائز نہیں۔جبکہ جمہور اہلِ علم کے نزدیک یہ بیع مکمل طور پر جائز ہے ۔ اور دلائل کے مطالعہ سے جمہور علماء کی رائے ہی قریب از صواب اورراجح معلوم ہوتی ہے کیونکہ: * رضامندی فقط قول ہی سے نہیں بلکہ عمل و فعل سے بھی واقع ہوتی ہے اور یہاں خریدار کا قیمت ادا کرکے چیز کو لینا اور فروخت کنندہ کا چیز کو دیکر قیمت وصول کرنا اُن کی باہمی رضامندی کی صریح دلیل ہے۔  زمانہ قدیم سے لوگوں کے مابین اس طرح سے معاملات کا لین دین معروف ہے ، اگرزبانی ایجاب و قبول صحتِ بیع کی شرط ہوتی تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسےصراحت سے ضرور بیان فرمادیتےاور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں فرمایاجو اس کے جواز کی دلیل ہے ۔
Flag Counter