Maktaba Wahhabi

200 - 534
(3) گارنٹی کی بعض صورتوں میں مستفید کلائنٹ سے براہ راست وصولی کرتا ہے ۔ لہٰذا ایسی صورت میں اگر ضامن ( یعنی بینک ) اپنا کمیشن لے گا تو گویا اس نے ناحق لیا کیونکہ ادائیگی تو کلائنٹ نے خود اپنی طرف سے کی ہے ۔ پھر ضامن کس چیز کا معاوضہ لے رہا ہے ؟ اور یہ معاوضہ لینا سراسر باطل ہے ۔ کیفیات میں بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس کے لیے ضمانت دی جا رہی ہو وہ خود جس کی ضمانت دی جا رہی ہو اس سے طلب کرتا ہےپس اس کیفیت میں توضامن کا اس عمل پر کوئی معاوضہ لینا قطعی صحیح نہیں اور یہ باطل ہے ۔اور یہ طرز عمل لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھانے کے مترادف ہے ۔ اور ابتدائی ضمانت اور دستاویزاتی ضمانت خط میں تو مستفید براہ راست کلائنٹ سے مطالبہ کرتا ہے نہ کہ بینک سے ۔ تنبیہات : یہاں دو باتیں انتہائی قابل توجہ ہیں اول: فقہی قواعد میں ایک قاعدہ ہے کہ اجرت اور ضمانت بیک وقت جمع نہیں ہو سکتیں۔ اور یہ قاعدہ اس ضمانت سے متعلق نہیں جوکہ زیرِ بحث ہے ۔بلکہ اس ضمانت سے مراد ( ضمان المتلفات یعنی تلف ہونے والی چیزوں کی ضمانت) ہے۔ دوم: فقہی قواعد میں سے ایک قاعدہ ہے کہ :’’ہر وہ کام جس کا کرنا جائز ہو اس پر معاوضہ لینا جائزنہیں ہوجاتا‘‘۔ بلکہ اس میں کچھ کام تو ایسے ہیں جن پر معاوضہ لینا جائز ہوتا ہے جیسا کہ بھاگے ہوئے غلام کو واپس لانے کے لئےکوئی معاوضہ اور رائلٹی مقرر کرنا ۔ اور کچھ پر معاوضہ لینا جائز نہیں جیسا کہ ضمانت پر یا جائز کھیل کھود پر معاوضہ لینا ، ، وغیرہ وغیرہ جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی معروف کتاب مجموع الفتاوی ( 30/ 215-216)میں بیان کیا ہے ۔ خلاصہ بحث سابقہ سطور میں جو کچھ گزرا اس کی روشنی میں دو اہم حقیقتیں آشکار ہوتی ہیں ۔ اول: کلائنٹ کی جانب سے ضمانت کے لیٹر کے مارجن کے حوالے سے تین صورتیں ہیں
Flag Counter