Maktaba Wahhabi

206 - 534
تفصیل کتب ستہ وغیرہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اجماعِ امت سے ثبوت امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے اس کے جواز پر اہلِ علم کا اجماع نقل کیا ہے ۔[1] لوگوں کی حاجت و ضرورت بھی اس کی متقاضی ہے کہ یہ بیع جائز ہو ،کیونکہ اس میں فریقین میں سے ہر ایک فائدہ اٹھاتاہے، فروخت کنندہ جلد و فوری رقم وصول کر کے اور خریدار(فوری ادائیگی کی وجہ سے) چیز سستی حاصل کر کے۔ [2] حافظ ذوالفقار علی حفظہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: سلم کی اجازت کا فلسفہ بعض کسانوں اور مینو فیکچررز کے پاس ضرورت کے مطابق مثلاً بیج، کھاد ، آلات، خام مال خریدنے اور لیبر وغیرہ کے لئے رقم نہیں ہوتی ، ایسے لوگوں کو اسلام نے یہ سہولت دی ہے کہ وہ حصول رقم کی خاطر اپنی فصل یا پیداوار قبل از وقت فروخت کر سکتے ہیں تاکہ قرض کے لئے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچے رہیں۔ اضافی فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی چیز بیچنے کے لئے کسٹمر تلاش کرنے کی فکر سے آزاد ہو جاتاہے کیونکہ اس کا سودا پہلے ہی ہو چکا ہوتا ہے۔ اس سے خریدار کو بھی فائدہ پہنچتا ہے کیونکہ سلم میں قیمت ان چیزوں کی نقد قیمت سے کم ہوتی ہے جونقد ادا کی جاتی ہو، مزید برآں اگر چیز آگے بیچنا چاہتا ہو تومارکیٹنگ کیلئے مناسب وقت بھی اسے مل جاتا ہے۔ [3] محقق العصر الشیخ مبشراحمد ربانی حفظہ اللہ امام ابن قیم رحمہ اللہ سے بیع سلم کی رخصت میں حکمت تحریر فرماتے ہیں اور پھر لکھتے ہیں: اسلام نے جب اس بیع کو جائز قرار دیا ہے تو اسے سود نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ تو ایک اسلامی تدبیر ہے، جس کی وجہ سے انسان سود پر قرض لینے سے بچ سکتا ہے۔لوگ اس کو اپنا لیں تو سود پر قرض لینے
Flag Counter