Maktaba Wahhabi

272 - 534
’’اشاریہ بندی ایک ایسا طریقہ کار ہے جس کے ذریعے قیمتوں کی عام سطح میں تبدیلیوں کی تلافی کرنے کے لئے تنخواہوں ،قیمتوں اور معاہدات میں جزوی یا کلی توازن پیدا کیا جاتاہے‘‘۔ جبکہ جے ایل ہانسن (J.L. Hansan)کے مطابق: “A System of relating income especially from investment the retail price index in a time of inflation in order to offset the fall in the value of money’’.[1] ’’ایک ایسا نظام جس میں بالخصوص سرمایہ کاری سے حاصل ہونیوالی آمدن کا افراطِ زر کے وقت قیمتوں کی پرچون سطح سے اس طرح تعلق قائم کرنا تاکہ روپے کی قدر میں کمی کا ازالہ کیا جاسکے ‘‘ مندرجہ بالا دونوں اور اسی نوعیت کی دیگر تعریفات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ افراطِ زر کی بنا پر تنخواہوں ، قیمتوں اور معاہدات کو جو خطرات لاحق ہوتے رہتے ہیں ان سے پیدا شدہ نقصانات کو دور کرنے کے لئے جو طریقہ کا ر استعمال کیا جاتا ہےاسے اشاریہ بندی کہتے ہیں ۔ کرنسی کی قوتِ خرید میں کمی کے علاج کے لئے ہر حل’’اشاریہ بندی‘‘ نہیں کہلاتا:یہاں یہ امر خاص طور پر قابلِ غور ہے کہ اشاریہ بندی کےلئے چند مخصوص طریقے استعمال کئے جاتے ہیں ۔ افراطِ زر سے قوتِ خریدمیں جو کمی واقع ہوتی ہے اس کے علاج کے لئے تجویز کردہ ہر طریقے کو اشاریہ بندی نہیں کہا جاسکتا ۔ یہ وضاحت اس لئے بھی ضروری ہے کہ سپریم کورٹ میں حافظ عبدالرحمن مدنی کےبیان کے حوالے سے جو غلط فہمی انجینئر سلیم اللہ اور بعض دوسرے حضرات کو لاحق ہوئی ہے، وہ دراصل اس غلط فہمی کا نتیجہ ہے کہ افراطِ زر کا ہر ممکنہ حل اشاریہ بندی کی طرف جاتا ہے ۔ اس بارے میں مضمون کے آخر میں چند گذارشات پیش کی جائیں گی ، فی الوقت اس نکتہ کو مدِ نظر رکھنا ضروری ہے۔ قرضوں کی اشاریہ بندی……….بنیادی مسئلہ جیسا کہ ذکر کیا جاچکا ہےکہ اشاریہ بندی نے تنخواہوں، امانتوں اور قرضوں سمیت کئی معامالات کو
Flag Counter