Maktaba Wahhabi

273 - 534
اپنے احاطہ میں لے رکھا ہے۔جہاں تک تنخواہوں وغیرہ کا تعلق ہے، اس ضمن میں ہر سال افراطِ زر کا تخمینہ لگا کر تنخواہوں میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔ شرعی نقطہ نظر سے اس میں کوئی قباحت نہیں کیونکہ اسلامی نظامِ پیداوار میں مزدور کی اجرت اور سرمائے کو برتنے کے پیمانے مختلف ہیں ۔یعنی مزدور کو مقررہ تنخواہ دی جاسکتی ہے اور اس میں حسبِ حال مخصوص اضافہ بھی کیاجاتا ہے جبکہ سرمائے کے لئے متعین ، لازمی منافع طے کرنا جائز نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اشاریہ بندی کا مسئلہ تجارتی قرضوں کے حوالے سے زیادہ اہم ہے اور عام طور پر بنکوں کے حوالے سے جب افراطِ زر اور اشاریہ بندی کی بات ہوتی ہے تو اس سے قرضوں کی اشاریہ بندی ہی مراد ہوتی ہے ، آئندہ سطور میں اشاریہ بندی کے جواز اور عدمِ جواز کے بارے میں بحث کا اصل محور’’قرضوں کی اشاریہ بندی‘‘ ہی ہے۔ کاغذی کرنسی ……….شرعی حیثیت چونکہ دورِ حاضر میں افراطِ زر کا بڑا مسئلہ براہِ راست کاغذی کرنسی کا پیدا کردہ ہے ، اس لئے ضروری ہے کہ کاغذی کرنسی کی اصل حیثیت کا تعین کرلیا جائے ۔ جب سے اشاریہ بندی کا معاملہ سامنے آیا ہے، کاغذی کرنسی کی اصل حیثیت کی بحث بہت زیادہ اہمیت اختیار کرگئی ہیں ۔ اس ضمن میں متعدد ملکوں کی فقہ اکیڈمیوں نے اپنے اپنے طور پر سیمینار منعقد کروائے اور مسئلے کو سلجھانے کی کوشش کی ۔ اس ضمن میں کسی تفصیل میں جائے بغیر سامنے آنے والی ان نمائندہ آراءکا خلاصہ درج ذیل ہے: کرنسی نوٹ کی شرعی حیثیت کے بارے میں علمائے کرام میں مندرجہ ذیل آراء پائی جاتی ہیں ۔ اس ضمن میں سب سے جامع بحث مکہ مکرمہ ہائیکورٹ کے جسٹس ڈاکٹر عبد اللہ بن سلیمان المنیع نے عربی زبان میں کی ہے ۔ تفصیل کے شائقین اصل کتاب کی طرف رجوع کریں [1] }جس کا اردو ترجمہ بھی پاکستان میں کاغذی
Flag Counter