Maktaba Wahhabi

276 - 534
کرنسی نوٹوں کے بارے میں یہ نمائندہ آراء عبداللہ بن سلمان المنیع نے پیش کی ہیں اور ہررائے کا تنقیدی جائزہ بھی لیا ہے ۔مندرجہ بالاآراء میں سے کسی ایک کو بھی اختیار کرنے کےجو نتائج وعواقب یا شرعی اشکال وارد ہوسکتےہیں، انہوں نے ان پر سیر حاصل گفتگوکی ہے ۔ نیز صاحبِ کتاب نے مؤخر الذکر رائے کو علمی غوروخوض کے بعد قبول کرلیاہے ۔اس ضمن میں اسلامی فقہ اکیڈمی جدہ ، اسلامی ترقیاتی بینک ، بین الاقوامی ادارہ برائے اسلامی اقتصادیات اسلام آباد اور اسلامی فقہ اکیڈمی انڈیا کےمنعقدکردہ سیمینارز اور قراردادیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں ۔[1] پاکستان میں وفاقی شرعی عدالت نے سود کےخلاف جو فیصلہ دیاتھا اس میں اس پہلو پر بھی بحث کی گئی تھی کہ فقہاء نے قیمتوں میں رد وبدل کےحوالے سے لین دین کی جو شروط پیش کی ہیں ، آیا ان سے اشاریہ بندی کےجوازکا کوئی پہلو برآمد ہوتا ہے کہ نہیں ؟ چنانچہ علامہ ابن عابدین ، ابنِ قدامہ اور فتاوی عالمگیری کے متعدد حوالہ جات سے اس تاثر کو زائل کیا گیا تھا کہ فقہاء کرام کی بعض تحریریں اشاریہ بندی کا جواز لئے ہوئے ہیں ۔ [2]5 }یہ تفصیل کا موقع نہیں ، اس پہلوکو پیشِ نظر رکھنے کے لئے صرف اشارہ مقصود تھا۔ قرضوں کی اشاریہ بندی کی شرعی حیثیت جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ اشاریہ بندی کا اصل تعلق کاغذی کرنسی کی فقہی حیثیت کے تعین کے ساتھ ہے ، چنانچہ اس سلسلے میں علماء اور ماہرین معیشت کو دو واضح گروہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے : اول : اس گروہ میں وہ علماء اور دانشور شامل ہیں جو اشاریہ بندی کے قائل ہیں ، ان میں رفیق مصری ، سلطان ابوعلی ، ایم اے منان ،ضیاءالدین احمد ، سلیم چشتی ، عمر زبیر ، گل محمد، مولانا محمدطاسین اور دیگر کئی علماء شامل ہیں۔[3]
Flag Counter