Maktaba Wahhabi

277 - 534
دوم : اس گروہ میں وہ علماء /دانشور شامل ہیں جو اشاریہ بندی کے مخالف ہیں اور متعدد وجوہ کی بنا پر اسے ناجائز بتلاتے ہیں ان میں محمد عمر چھابرا ، حامد اللہ کاف، محمد نجات اللہ صدیقی ، محمد حسن الزمان ، مولانا تقی محمد عثمانی ، علی احمد سالوس اور دیگر کئی علماء اور ماہرین معیشت شامل ہیں ۔[1] } اسی نقطہءنظر کو مختلف ممالک کی اسلامی فقہ اکیڈمیوں نے بھی اختیار کیا ہے ۔[2]}اسلامی معیشت کے عام ماہرین اور اساتذہ کی رائے میں یہی راجح ہے ۔ ذیل میں ہم ہر دو فریقین کے دلائل کا مختصراً جائزہ لیں گے۔ مجوزین کے دلائل قرضوں کی اشاریہ بندی کے حامی مندرجہ ذیل دلائل سے استفادہ کرتے ہیں : کاغذی کرنسی کی شرعی حیثیت کے بارے میں مجوزین کا نقطہءنظر: وہ تمام حضرات جو کاغذی کرنسی کو ثمن حقیقی قرار نہیں دیتے بلکہ دیگر آراء میں سے کسی رائے کے حامی ہیں ، وہ کسی حد تک اشاریہ بندی کے حامی ہوسکتے ہیں ۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ سب ہی اشاریہ بندی کے حامی ہوں مگر عام طور پر یہ اشاریہ بندی کے حامی اور قائلین انہی آراء کے حامل نظر آتے ہیں ۔ کیونکہ جب یہ موقف اختیار کیا جاتا ہے کہ کاغذی کرنسی ثمن حقیقی کی حیثیت اختیا ر کرگئی ہے تو اشاریہ بندی کا دروازہ خود بخود بند ہوجاتا ہے ، اس ضمن میں وضاحت پہلے گذر چکی ہے۔ (1)چنانچہ قائلین اشاریہ بندی یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ جب کاغذی کرنسی کی ثمنیت کسی اور چیز پر موقوف ہے تو افراطِ زر کے نتیجے میں وہ دوسری شے بنیاد بن سکتی ہے اور اس کو بنیاد بنا کر قوتِ خرید میں جو کمی واقع ہوئی ہے، اس کے نقصان کی تلافی ممکن ہے۔ اگر بغور دیکھا جائے تو یہ رائے درست نہیں ، کیونکہ کاغذی کرنسی کے ضمن میں راجح رائے یہی ہے کہ وہ
Flag Counter