Maktaba Wahhabi

287 - 534
دلچسپی نہیں رکھتے ۔ ان کے نزدیک یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو کاغذی کرنسی کے ساتھ ناگزیرہے اور اس کا ہر ممکنہ حل اشاریہ بندی کی طرف لے جاتا ہے ۔ چنانچہ اس غلط فہمی اور اس کے نتیجے میں پیداہونے والی فکر نے حافظ صاحب کو بھی اشاریہ بندی کا حامی قرار دیا ہے ۔ حالانکہ کاغذی کرنسی کو ثمنِ حقیقی تسلیم نہ کرنے اور اشاریہ بندی کے درمیان کوئی لازمی تعلق نہیں کہ ایک کا انکار دوسرے کے اقرار کو لازم کردے۔ یہاں اسی حقیقت کا اظہار بھی مقصود ہے کہ اشاریہ بندی کے غلط مفہوم کی وجہ سے یہ لازمی تعلق قائم کرنے والا ذہن پیدا ہواہے۔افراطِ زر کرنسی کو لاحق ہونے والی بیماری ہے اور اس کا ہر علاج اشاریہ بندی کے زمرے میں نہیں آتا ۔ اگر ایسا ہوتا تو کم از کم فہیم خان اور منور اقبال جیسے ماہرین معیشت یہ غلطی نہ کرتے کہ دونوں حضرات نے اشاریہ بندی کے عمل کو مسترد کرکے جو متبادل حل پیش کئے ہیں وہ اگر کلی طور پر نہیں تو اصولی طور پر ضرورمدنی صاحب کے پیش کردہ حل سے مماثلت رکھتے ہیں ۔یہ حضرات خوب سمجھتے ہیں کہ اشاریہ بندی کا دائرہ کار کہا ں تک وسیع ہے اور اس کی حدود کہاں ختم ہوجاتی ہے۔ اس ساری بحث کا مقصدیہ نہیں کہ حافظ عبدالرحمن مدنی صاحب نے جو موقف اختیا ر کیا ہے اس کی صحت کو ثابت کیا جائے ۔ حافظ صاحب کے موقف سے اختلاف ممکن ہے مگر ان کے موقف کی صحیح روح کو سمجھنے کے بعد ہی یہ اختلاف فائدہ مند ہے بصورتِ دیگر خلطِ مبحث ہوجائےگا۔ خلاصہ اس ساری بحث کو سمیٹا جائے تو مندرجہ ذیل امور ہمارے سامنے آتے ہیں۔ 1۔ افراطِ زر کا مسئلہ بڑی اہمیت کا حامل ہے اور اس کا قباحتوں سے پاک شرعی حل تلاش کرنا ہوگا۔ 2۔ اس مسئلے سے نپٹنے کے لئے اب تک جو طریقے سامنے آئے ہیں وہ ناقابلِ عمل ہیں ، کیونکہ: (الف )وہ حضرات جو کاٖغذی کرنسی کو ثمنِ حقیقی قراردیتے ہیں ، ان کی طرف سے تو اس مسئلے کا کوئی حل پیش ہی نہیں کیا گیا ۔ (ب)وہ حضرات جو نظریہ بدل کے قائل ہیں اس کا حل تھیوری سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے اور موجودہ نظام میں اس کا آگے بڑھنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
Flag Counter