Maktaba Wahhabi

318 - 534
ہے کہ تکافل فنڈ میں رقم جمع کروا کر جس چیز کا وہ انشورنس کرارہا ہے اس میں نقصان ہونے پر اس کی تلافی ضرور کی جائے گی، اور یہی شرط تعاون کے منافی ہے۔اس کی وضاحت آگے ہوگی۔ تکافل میں اور عام انشورنس میں کچھ فرق ضرور ہیں جیسے تکافل میں انشورنس کرانے والے کی حیثیت صارف کی نہیں ہوتی بلکہ وہ مجموعی رقم میں شریک بن جاتا ہے۔ جمع شدہ رقم پر جو منافع آتا ہے وہ تمام شرکاء میں شراکت کے تناسب سے تقسیم ہوتا ہے، جبکہ انشورنس کمپنیاں اس منافع کو صرف اپنے پاس رکھتی ہیں صارف کو نہیں دیتیں۔ تکافل میں مدت پوری ہونے کے بعد رقم واپس مل سکتی ہے ، جبکہ انشورنس میں مکمل رقم واپس نہیں ہوتی۔ اس کے باوجود بھی یہ کہنا درست نہیں کہ تکافل میں جوا اور سود موجود نہیں ہے ، بلکہ تکافل میں سود اور جوا دونوں موجود ہیں ، اس کی وضاحت اس طرح ہے کہ: تکافل میں جو شریک ہے وہ قسطیں ادا کرتا ہے ، اگر اسے نقصان ہوگیا تو تکافل کمپنی کی طرف سے اس کا عوض ادا کیا جائے گا جو یقینا ً اس کی ادا کردہ قسطوں سے زیادہ ہوگا، تو یہی چیز سود ہے کہ پیسوں کے تبادلہ کے دوران ایک طرف سے زائد ادائیگی کرنا، یہ ربا الفضل یعنی زیادتی کا سود ہے۔ تکافل میں رقوم جمع کرانے والے تمام افراد شرکاءہیں ، اگر ان شرکاء میں سے کسی ایک کو حادثہ پیش آجاتا ہے تو اسے تکافل کمپنی کی طرف سے ادائیگی کی جاتی ہے جبکہ جس شریک کو حادثہ پیش نہ آئے اسے اس کی رقم ہی واپس ملتی ہے تو یہ اس کے لئے ایک طرح کا نقصا ن ہے ، تو بعض شرکاء نفع میں رہے بعض کو اصل رقم ہی واپس ملی لہذا یہ بالکل واضح جوا ہے۔ تکافل کو جائز کہنے والے افراد کے پاس اس کو جائز کہنے کی ایک ہی دلیل باقی رہ جاتی ہے کہ یہ معاملہ تعاون پر مبنی ہے ، تمام شرکاء ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں، ہر شریک جو قسط دیتا ہے وہ اپنے دیگر شرکاء کے ساتھ تعاون کی نیت سے ہی ادا کرتا ہے، لہذا اس میں اگر کچھ معاملات حرام بھی ہیں تو بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اب ذرا اس پہلو کا جائز ہ لیتے ہیں کہ کیا تکافل واقعی تعاون پر مبنی ہے ؟ جواب یہ ہے کہ بالکل نہیں۔ تکافل مکمل طور پر ایک تجارتی معاہدہ ہے اس میں تعاون کی کوئی شکل نہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ:
Flag Counter