Maktaba Wahhabi

322 - 534
الجھن نہیں۔ البتہ گزشتہ کچھ عرصہ سے بعض اداروں اور کمپنیوں کی طرف سے لوگوں کے سامنے معاملات کو خلط ملط کرنے اور حقائق کو پلٹنے کا سلسلہ جاری ہے ، ان اداروں نے تجارتی انشورنس کو تعاونی انشورنس (تکافل ) کا نام دیا ہوا ہے اور لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے اور خود کو سہارا دینے کے لئے اس کے جوازکو علماء کمیٹی کی طرف منسوب کرتے ہیں جبکہ علماء کمیٹی اس سے مکمل طور پر بری ہے، اور کمیٹی نے پہلے ہی تجارتی انشورنس اور تعاونی انشورنس کے درمیان فرق کو واضح کردیا ہے ، لہذا نام بدلنے سے حقیقت نہیں بدلتی ، اسی لئے علماء کمیٹی نے حقائق کو ظاہر کرنے اور عوام کو اس دھوکہ سے خبردار کرنے کے لئے یہ فتوی جاری کیا ہے‘‘۔[1] اس فتوی میں علماء کمیٹی نے واضح طور پر تحریر کیا ہے کہ جس تعاون پر مبنی انشورنس کے جواز کا فتوی جاری کیا گیا تھا وہ ایسا تعاونی انشورنس نظام ہے جس میں اشتراک کرنے والا شخص کسی قسم کے عوض کا مطالبہ نہ کرے ،اور یہی تعاون کی روح ہے ، جبکہ تکافل میں اشتراک کرنے والا ہر شخص جب تکافل کمپنی سے معاہدہ کرتا ہے تو اس میں یہ طے ہوتا ہے کہ اس کی طرف سے ادا کی جانے والی رقم کے بدلہ میں کمپنی اس کے ہونے والے ممکنہ نقصان کی تلافی کرے گی۔ قارئین کرام! اس تمام بحث کے مطالعہ کے بعد آپ یقیناً سمجھ سکتے ہیں کہ کس طرح حقائق کو مسخ کر کے اور بھرپور دھوکہ دہی کے ساتھ مسلمان عوام کو حرام کی طرف مائل کیا جارہا ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے اور حق کو سمجھنے اور اس کی اطاعت کی توفیق عطا فرمائے۔آمین انشورنس کا صحیح اسلامی متبادل اللہ تعالی کبھی بھی اپنے بندوں کے لئے تنگی نہیں چاہتا بلکہ آسانیاں فراہم کرتا ہے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے: }يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ { (البقرہ:185) ترجمہ:’’اللہ تعالی تمہارے ساتھ آسانی کرنا چاہتا ہے تنگی کرنا نہیں چاہتا‘‘۔ اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ تجارتی معاملات جنہیں شریعت نے حرام قرار دیا ہےحلال تجارتی
Flag Counter