Maktaba Wahhabi

379 - 534
معلوم ہونا ضروری ہوتا ہے اور مشارکت مواجرت سے الگ ایک قسم ہے۔اسی طرح جنہوں نےمزارعت اور مساقاۃ کو منع کیا ہے انہوں نے یہی سمجھا ہے کہ یہ ایسا معاملہ ہے جس میں اجیر[عامل] کی اجرت مجہول ہے اور اسکا انکار کردیا مگرحقیقت میں ایسا نہیں ہے کیونکہ مزارعت میں عامل اور مالک زمین کے نفع اور نقصان میں شریک ہوتے ہیں اور یہ عین عدل ہےاور ظلم و غررسے انتہائی دور..[1]امام ابو یوسف نے بھی اپنی ’’کتاب الخراج‘‘میں اسی قسم کی توجیہ بیان کی ہےکہ مزارعت کا معاملہ مضاربت کے جیسا ہی ہے،اس طرح قفیز الطحان کا معاملہ بھی حل ہو جاتا ہے کہ جب وہ اجیر ہی نہیں تو مزارع اپنے عمل سے اپنی اجرت نہیں بلکہ اپنا حصہ وصول کرتا ہے جس پر وہ متفق ہوئے ہیں۔ (3)- اراضی خیبر کا خراجی قراردینا اراضی خیبر کا خراجی قراردینادرست نہیں جس کی تفصیل اوپر بیان کی جا چکی ہے۔ اورکتبِ فقہ حنفیہ میں امام صاحب کی مما نعت کے با وجودمزارعت کے مفصل احکام مذکور ہیں سیدانور شاہ مرحوم جو حنفی مسلک کے مایہ نازعالم دین ہیں اورانہوں نےمتعدد معرکۃ الآراء مسائل پر کتابیں بھی تصنیف فرمائی ہیں، درسِ حدیث کی تقریر کی جامعیت کا اندازہ ’’ فیض الباری ‘‘سے کیا جاسکتا ہے۔ جو صحیح بخاری کی تقریر ہےاور چار ضخیم جلدوں میں شائع ہے، دو مختلف و معارض اقوال میں اپنی قوت استنباط کے زور سے بلاتکلف ایک کو دوسرے پر ترجیح دیدیتے تھے،وہ فیض الباری میں فرماتے ہیں کہ:’’میں صاحب ہدایۃ کی مزارعت کے متعلق روش کو مدت تک نہ سمجھ سکاکہ ایک طرف تو وہ مزارعت کو ابوحنیفہ کے نزدیک ممنوع فرماتے ہیں اور صاحبین اورامام صاحب کا اختلاف نقل کرتے ہیں،جب امام کے نزدیک مزارعت درست ہی نہیں اس اختلاف اور فروع کے ذکرکی کیاضرورت ہے؟‘‘اور دوسری جگہ فرماتےہیں کہ ’’پھر حاوی القدسی سے معلوم ہوا کہ امام صاحب نے مزارعت کو مکروہ سمجھا ہے سختی سے منع نہیں فرمایااسی حوالہ سے مجھے اطمینان ہو گیا‘‘۔[2]
Flag Counter