Maktaba Wahhabi

380 - 534
مندرجہ بالا سطور سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کےمزارعت سےمنع کرنے کی بنیادی وجہ باہمی مفادات میں عدم توازن اور محنت کرنے والے کااستحصال ہے اگر کسی کی حق تلفی نہ ہو تو اس معاہدے میں کوئی مضا ئقہ نہیں۔ دیگر مسائل معاہدۂ مزارعت مزارعین کی مشارکت:اگر مزارعت میں عامل یعنی مزارع کسی وجہ سےاپنا کام مکمل کرنے سے عاجز ہو تو اپنے ساتھ دوسرے عامل کو شریک کر سکتا ہےاوراسے اپنے حصے سے بٹائی ادا کرےجس پر بھی انکا اتفاق ہو،بشرطیکہ زمین کے مالک نے یہ شرط نہ لگائی ہو کہ صرف اول الذکر عامل ہی کام کرے اگر اس قسم کی شرط ہو تو پھر زمین کے مالک کی اجازت لازمی ہو گی۔[1] فسخ معاہدہ مزارعت اگر فصل تیار ہونے سے پہلےمالک معاہدے کو ختم کرنا چاہے تو وہ مزارع کو مثل نصیب[پیداوار سے اس کے حصے کے برابر ]اداکرے گا،کیونکہ وہی عامل کو کام کرنے سے منع کررہا ہے جس کے عوض مزارع نے اپناحصہ وصول کرناتھایہی شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا موقف ہے اورجبکہ دیگر علماء کرام کا موقف ہے کہ مثل اجرت ادا کی جائے گی،لیکن اگر مزارع خود ہی معاہدے کو ختم کرنا چاہے تو اس کے لئے پھر پیداوار سے کچھ ادا نہیں کیا جائے گا کیونکہ وہ خود ہی اپنے حق سے دستبردار ہوا ہے بالکل اسی طرح جیسے مضاربت کا عامل منافع ظاہر ہونے سے پہلے ہی الگ ہو جائے تومنافع میں حصہ دار نہیں ہوگا،اور فسخ اگر اس وقت ہو جب فصل پکنے کے قریب ہو تو مالک اور مزارع دونوں اپنا مکمل حصہ وصول کریں گے جس پر انکا اتفاق ہوا تھا اور مزارع اپنا کام مکمل کرےگا،اگرعامل اتنی لا پرواہی کرے کہ پیداوار تباہ ہوجائے تو نقصان کا ذمہ داروہی ہوگا اور اسی پرضمان ہوگی۔ مالک اپنی اراضی فروخت کرنا چاہے تو کیا مزارع کوبھی کچھ مبلغ ادا کرے گا:اگر کچھ مزارع عرصہ دراز سے زمین کاشت کر رہے ہوں اور مالک زمین کو فروخت کرنا چاہے تو مزارعین کو کوئی حق نہیں کہ وہ زمیندار یا
Flag Counter