Maktaba Wahhabi

382 - 534
زمیندار کی باری کی بنسبت اپنی باری زیادہ محنت کرے۔ (6) مدت مزارعت معلوم ہو ،اگر فصل کی مدت مکمل ہونے سے قبل زمیندار کاشت کار کو الگ کرنا چاہے تو مثلِ محنت ادا کرے۔ (7) زمیندار اور کاشتکار دونوں اس معاہدے میں ایک دوسرے کے شریک ہیں نہ ہی زمیندار کاشت کار کواپنا غلام تصورکرے اور نہ ہی کاشتکارغصب کے ذریعے زمین کا مالک بننے کی کوشش کرے۔ خاتمہ گزشتہ اوراق میں ذکر کردہ آیات واحادیث مبارکہ اور علماء اسلام کی پیش کردہ توجیہات اور تشریحات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اسلام کے معاشی نظام میں بنیادی وسائل ِمعیشت میں سے زراعت کو بہت اہمیت دی گئی ہے،اور اسلامی حکومت کا یہ امتیاز رہا ہے کہ اس میں سرکاری اراضی کی انتہائی منصافانہ تقسیم کا طریقہ کار رائج ہو اور ملکیتِ زمین کے حوالے سے خاطر خواہ تشریعی احکام جاری ہوئےجن میں شخصی ملکیت کا احترام بھی ہے اور مزارع یا حکومت وقت کو غصب و انتہاب کی کسی صورت اجازت نہیں دی گئی اس میں نہ قدیم وجدید جاگیر دارانہ نظام جیسی نظیر ملتی ہے کہ جس میں بڑے بڑےزمیندار کاشت کاروں کے جان ومال پر متصرف نظر آئیں اور نہ ہی اشتراکیت کی یہ جھلک نظر آتی ہے کہ جس میں زمیندار کو اس کے حقِ ملکیت سے ہی محروم کر دیا جائے۔علاوہ ازیں معاہدہ مزارعت کی بھی اسی صورت اجازت دی گئی کہ جس میں زمیندار اور کاشتکار کا معاہدہ مزارعت میں دو شریک کاروں کی حیثیت میں سامنے آئیں اگر اس میں بھی افرادامّت کے درمیان بغض اور عداوت اورایک دوسرے کی حق تلفی کی صورت میں اسے بھی ممنوع قراردیا ہے،غرض کہ اسلامی اقتصادی نظام میں معاہدہ مزارعت کا مقصدانفرادی اور اجتماعی تعاون وترابط اورتراحم کو مضبوط کرتا ہےتاکہ مسلمانوں کے درمیان باہمی اخوت اور محبت کا رشتہ قائم رہے اور اسکے لئے اسلامی معاشی نظام کودوسرے نظاموں کو مشرف بالاسلام کرنے یا ان سےکچھ مستعار لینے کی ضرورت نہیں وہ ہر قسم کے زمان و مکان کے لئے صالح اور موزوں ہے بس ضرورت ہے تو اسے نافذ کرنے کی ،کہا جاتا ہے ایک مرتبہ مولانا عبید اللہ سندھی لینن سے ملے اور انہیں اسلامی نظام معیشت لکے بارے میں بتایاتو لینن نے اعتراف کیا یہ واقعی انصاف پر مبنی نظام ہے لیکن مجھے کہیں زمین پر دکھا دیجئے میں اسے قبول کر لوں گا۔
Flag Counter