Maktaba Wahhabi

388 - 534
فرمایا:’’سود کے ستر درجے ہیں اور اس کا کم از کم گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں کے ساتھ بدکاری کرے‘‘۔[1] ایک اور حدیث میں ہے آپ نے فرمایا :’’ سود لینے والا، کھانے اور کھلانے والا،دینے والا،اس کی دستاویز لکھنے والا اور ایسے معاملہ پر گواہ بننے والا سب لوگ لعنتی ہیں‘‘۔[2]یاد رہے کہ جنس کا جنس سے یعنی غلہ کا غلہ سے تبادلہ کرتے ہوئے برابری ضروری ہے ورنہ یہ بھی سود بن جائے گا۔ سود کے نقصانات سابقہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ کوئی آدمی اپنی اصل پر بغیر محنت و مشقت کئے اور بغیر اپنی کسی صلاحیت کو استعمال کئے جو زائد رقم لے وہ سود ہے جس سے شریعت نے منع کیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اگر غور کیا جائے تو سود کے بہت سے نقصانات بھی ہیں ۔مثلا سود خور آدمی خود غرض، مفاد پرست، حریص، تنگ دل اور زر پرست بن جاتا ہے۔ اور اس کے دل میں مال و دولت کی ہوس مزید پروان چڑھتی چلی جاتی ہے اس کے برعکس اسلامی تعلیمات کے نتیجہ میں انسان ایک فیاض، سخی،ہمدرد ،فراخ دل،عالی ظرف اور دوسروں کا خیر خواہ اور خیر اندیش ہوتا ہے۔سود خور ان تمام صفات عالیہ سے یکسر محروم ہوتا ہے۔ سود کا دوسرا نقصان یہ ہے کہ اس طرح غریب طبقہ مزید غریب اور محروم کیا جاتا ہے ایک شخص پہلے ہی ضرورت مند اور محتاج ہوتا ہے اور اسے سود پر رقم ملے تو وہ مزید زیربار ہوجاتا ہے اور اس کی رہی سہی قوت خرید بھی آہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہے اور وہ جو کچھ کماتا ہے وہ ساہوکار لے جاتا ہے۔ جواز سود کی عقلی توجیہات 1ـ بعض مغرب زدہ لوگوں میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ سود صرف اسی صورت میں قابل اعتراض ہے جب وہ ذاتی ضرویات کیلئے دی گئی رقم پر لیا جائے ان کا خیال ہے کہ اگر کوئی آدمی کاروبار کیلئے کسی سے رقم لے یا کسی کو رقم دے تو ایسی صورت میں سود کا لین دین حرام نہیں بلکہ سراسر معقول، جائز اور حلال ہے۔مگر ان کا یہ خیال بالکل غلط ہے کیونکہ یہ بھی اصل رقم سے زائد ہے جو وہ بلاوجہ اور بلا معاوضہ لے رہا ہے لہذا یہ بھی ناجائز ہے۔
Flag Counter