Maktaba Wahhabi

471 - 534
ہے جس نے جاری کی تھی یا کسی اور بینک کے پاس اور اسے دیکر پر درج کردہ رقم سے کچھ رقم کٹوتی کرا کر باقی وصول کرلیتا ہے اور بینک بعد میں اس پر درج کردہ رقم امپورٹر سے وصول کرے گا۔ یہ ڈسکاؤنٹ حرام ہے ، کیونکہ یہ سود کے زمرہ میں آتا ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں رقم کا تبادلہ رقم سے ہے اور رقوم کے تبادلہ میں (جب جنس ایک ہو، یعنی کرنسی ایک ہو) تو کمی بیشی کرنا سود ہے ، اور خاص طور پر اگر اس کمی بیشی کا تعلق مدت سے ہو تو یہ سود ہے، اب چونکہ اس میں بینک اس وجہ سے مخصوص رقم اداکر رہا ہے کہ اسے پر درج رقم ایک مدت کے بعد ملے گی ، تو گویا اس نے کم رقم فوری قرض دے کر بعد میں زیادہ رقم وصول کی جو کہ عین سود ہے۔ بغیر ڈسکاؤنٹ کے گزشتہ سوال میں درج شرائط کے تحت پر خرید و فروخت صحیح ہے۔ تاخیر پر جرمانہ سوال نمبر 1 : اسلامی بینک تاخیر پر اگر جرمانہ نہ لگائے تو پھر کوئی بھی مقررہ وقت پر ادائیگی نہیں کرےگا؟لہٰذا اس خدشہ کے تحت کیا یہ جرمانہ ٹھیک نہیں ہے ؟ (سلیم معرفانی میمن) جواب: سوال میں سائل کی عام مسلمانوں کے حوالہ سے صریحاً بد گمانی نظر آتی ہے جو کہ درست نہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : " إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الحدِيثِ" بدگمانی سے بچو، بیشک بد گمانی سب سے جھوٹی بات ہے"[1]۔ جہاں تک تعلق ہے تاخیر پر جرمانہ کرنے کا تو ایسا شخص جو جان بوجھ کر تاخیر کرے شریعت کی نظر میں وہ ظالم ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "مطل الغني ظلم" ’’مالدار (قرضدار ) کا (ادائیگی میں) ٹال مٹول کرنا ظلم ہے‘‘[2]۔ بلکہ شریعت نے اس حوالہ سے قرض خواہ کی رہنمائی بھی کی ہے کہ وہ اس صورت میں کیا کرے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : "لي الواجد يحل عرضه و عقوبته"’’ مالدار کا ٹال مٹول کرنا اس کی عزت اور اس پرسزا کو حلال کردیتا ہے‘‘[3]
Flag Counter