Maktaba Wahhabi

82 - 197
دے کر عدل و انصاف پر آمادہ کیا جائے۔[1] دو علماء کے بیانات: ۱: بعض علمائے امت نے یہ بھی فرمایا ہے[2] کہ علمِ شرعی کے حصول کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنے والے درجِ ذیل آیتِ کریمہ میں مذکور لوگوں میں شامل ہیں: {لِلْفُقَرَآئِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ یَحْسَبُہُمُ الْجَاہِلُ اَغْنِیَآئَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُہُمْ بِسِیْمٰہُمْ لَا یَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ}[3] (خیرات ان محتاجوں کے لیے، جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں (جہاد کے لیے یا دین کا علم حاصل کرنے کے لیے) بند کیے گئے ہیں۔ زمین میں سفر نہیں کرسکتے۔ جو ان کا حال نہیں جانتا، وہ اُنہیں ان کے سوال نہ کرنے کی وجہ سے، مال دار سمجھتا ہے۔ آپ اُن کا چہرہ دیکھ کر اُن کو پہچان لیتے ہیں۔ لوگوں سے لپٹ کر نہیں مانگتے اور تم جو مال بطورِ خیرات خرچ کرو، پس بلاشبہ اللہ تعالیٰ اُسے خوب جاننے والے ہیں۔) ۲: علامہ غزالی لکھتے ہیں: ’’اپنے صدقات ایسے لوگوں تک پہنچانے کا اہتمام کرنا چاہیے، جن کی وجہ سے صدقات کی قدر و قیمت میں اضافہ ہو، جیسے اہلِ علم پر صدقات خرچ کرنا، کیونکہ اس سے انہیں حصولِ علم میں مدد ملے گی۔ اگر نیت درست ہو، تو علم سب سے بلند مرتبہ عبادت ہے۔ امام عبد اللہ بن مبارک اپنی خیرات اہلِ علم
Flag Counter