Maktaba Wahhabi

131 - 202
اجارہ کے اصول اور اسلامی وروائتی بینک آج کل اسلامی بینکاری کا بڑا غلغلہ ہے۔پاکستان سمیت دنیا بھر میں اسلام کے نام پر بینک اور مالیاتی ادارے قائم کئے جا رہے ہیں۔یہ بینک اور مالیاتی ادارے جن شرعی اصطلاحات کے نام پر اپنی مصنوعات متعارف کرارہے ہیں ان میں اجارہ(Ijarah) بھی شامل ہے۔بلکہ اسلامی بینکاری کے سیاق وسباق میں اس کا تذکرہ بکثرت ہوتا رہتا ہے،جیسے آٹو اجارہ، پلانٹ اینڈ مشینری اجارہ وغیرہ جبکہ روائتی بینک بھی اس کے استعمال میں پیش پیش ہیں بلکہ بینکاری کے ساتھ اس کا تعارف روائتی بینکوں کے ذریعے ہی ممکن ہوا ہے اسلامی بینکوں نے یہ تصورانہی سے لیاہے۔ بلاشبہ اجارہ اسلامی معیشت کی معروف اصطلاح ہے جس سے دین کا ہر طالب علم آشنا ہے لیکن محض اجارے کا لفظ دیکھ کر کسی معاملے کو اسلامی قرار نہیں دیا جاسکتا جب وہ پوری طرح شرعی اصول سے ہم آہنگ نہ ہو۔اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کو اجارہ کے شرعی احکام سے روشناس کرایا جائے تاکہ وہ خود فیصلہ کرسکیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے۔ اجارہ کی حقیقت لغوی اعتبار سے اجارہ کا لفظ’’اجر‘‘ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں’’معاوضہ‘‘ ماہرین شریعت کے نزدیک جب ایک طرف کسی چیز کا حق استعمال(Usufruct) یا کسی شخص کی محنت ہو اور دوسری جانب اس کا معاوضہ تو وہ معاملہ اجارہ کہلاتاہے۔چنانچہ اجارہ کی شرعی تعریف یوں کی جاتی ہے۔ " هي عقد علي منفعة مباحة معلومة من عين معينة أو موصوفة
Flag Counter