Maktaba Wahhabi

134 - 202
وہی اشیاء ہیں جنہیں استعمال کرنے کے لیے انہیں بذات خود خرچ کرنا پڑے، اس کے بغیر ان کا استعمال ممکن نہ ہو، جیسے مختلف ممالک کی کرنسیاں ہیں کہ جب تک ان کوخرچ نہ کیا جائے ان سے فائدہ اٹھانا ممکن نہیں۔اگرقرض کی شکل میں کوئی ایسی شئی دی جائے جو استعمال کے بعد بھی باقی رہے تو اس کو اعارہ یا عاریہ کہاجاتا ہے۔عاریہ میں بعینہ وہی شئی واپس کرنا ضروری ہے۔ ٭ کرایہ پر دی گئی چیز کی افادیت کو برقرار رکھنا مالک کےفرائض میں شامل ہے جس کےلیے بعض اوقات اسے مزید اخراجات بھی کرنے پڑتے ہیں۔اس کے برعکس قرض کے مال کو برقرار رکھنے کے لیے مزید اخراجات کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ٭ اجارہ میں چیز بدستور مالک کی ملکیت میں رہتی ہے اورطے شدہ مدت گزرنے کے بعد بعینہ وہی چیز واپس کرنا ضروری ہے،اور اگر دوران مدت اجارہ پر دی گئی چیز کا کوئی نقصان ہوجائے بشرط یہ کہ کرایہ دار کی غفلت یاغلط استعمال کی وجہ سے نہ ہوا ہوتو اس کا ذمہ دار مالک خود ہی ہوتا ہے،جبکہ قرض میں اتنی مدت کے لیے ملکیت بھی قرض گیر کی طرف منتقل ہوجاتی ہے، اس لیے وہ ہرحال میں اس کی واپسی کا ذمہ دار ہوتاہے۔اور بعینہ قرض دی گئی چیز لوٹا نا لازمی نہیں ہوتا بلکہ اس کی مثل بھی واپس کی جاسکتی ہے۔ اجارہ قرآن وحدیث کے آئینے میں اجارے کا جواز قرآن مجید،حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع امت تینوں سے ثابت ہے۔قرآن حکیم میں ہے کہ جب حضرت خضر علیہ السلام نے ایک جھکی ہوئی دیوار کو اجرت لیے بغیر سیدھا کردیا تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: ﴿ لَوْ شِئْتَ لاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا﴾ ’’اگر آپ چاہتے تو اس پر اجرت لے لیتے‘‘[1]
Flag Counter