Maktaba Wahhabi

136 - 202
"وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ أَعْطَى النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ بِالشَّطْرِ، فَكَانَ ذَلِكَ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَصَدْرًا مِنْ خِلاَفَةِ عُمَرَ" ’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو خیبر کی اراضی نصف پیداوار کے عوض اجارہ پر دی۔یہ اجارہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ حضرت ابوبکر صدیق کے زمانہ اور حضرت عمر کی خلافت کے ابتدائی دور میں بھی جاری رہا۔‘‘[1] امام ابن منذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "الاجارة۔بكتاب اللّٰه تعاليٰ وبالاخيار الثابتة عن النبي صلي اللّٰه عليه وسلم واتفق علي إجازتها كل من نحفظ قوله من علماء الأمة والحاجة داعية إليها لأن أكثر المنافع بالصنائع" ’’اجارہ کتاب اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث سے ثابت ہے۔اور اس کے جواز پر وہ تمام علمائے امت متفق ہیں جن کے اقوال ہمیں یاد ہیں۔علاوہ ازیں لوگوں کی حاجت وضرورت بھی اس کے جواز کی متقاضی ہے کیونکہ اکثر فوائد مختلف پیشوں سے ہی حاصل ہوتے ہیں‘‘[2] اجارہ میں پنہاں حکمتیں اجارہ انسانوں کی بنیادی ضروریات کی فراہمی آسان بنانے کا اہم ذریعہ ہے کیونکہ بسا اوقات انسان کو کسی چیز کی اشد ضرورت ہوتی ہے لیکن وہ چیز اس کی قوت خریدسے باہر ہوتی ہے یا وہ خرید نے پر قادر ہوتا ہے مگر اس کی مالیت کے مقابلے میں فائدہ بہت کم ہوتا ہے اس وجہ سےانسان خریداری کی جگہ کرایہ داری کے معاملے کو ترجیح دیتا ہے۔یا بعض اوقات اس کے پاس کوئی
Flag Counter