Maktaba Wahhabi

152 - 202
ہے کبھی کہاجاتا ہے کہ یہ رقم بینک کے پاس امانت ہے بینک اس میں تصرف کا مجاز نہیں۔کبھی اسے قرض قراردیاجاتا ہے، اور کبھی کہاجاتا ہے کہ یہ رقم پیشگی کرایہ ہے یعنی کرائے کے دوحصے ہوتے ہیں ایک حصہ ماہانہ اقساط کی صورت میں لیاجاتاہے اور دوسرا حصہ سیکورٹی ڈپازٹ کے نام پرکل مدت اجارہ کے مقابلے میں پیشگی وصول کرلیا جاتا ہے۔ لیکن ان توجیہات میں سے کوئی توجیہ بھی ایسی نہیں جو دینی اعتبار سے قابل اعتراض نہ ہو۔امانت قراردینے پر یہ اعتراض اٹھتاہے کہ امانت سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں۔نیز مالک جب چاہے اپنی امانت واپس لے سکتا ہے جبکہ بینک سیکورٹی ڈپازٹ کی رقم سے فائدہ بھی اٹھاتا ہے اور مالک کی حسب منشاء واپس بھی نہیں کرتا۔ قرض قراردینے سے یہ قباحت پیدا ہوتی ہے کہ اس طرح قرض اور بیع کا معاملہ جمع ہوجاتے ہیں کیونکہ کلائنٹ بینک کو یہ قرض اس شرط پر دیتا ہے کہ بینک اسے اجارہ کی سہولت فراہم کرے یہ منع ہے جیسا کہ قبل ازیں بیان ہوچکاہے۔مزید یہ کہ قرض کے بدلے حاصل ہونے والا ہر فائدہ سود ہے جبکہ یہاں ہمیشہ کرایہ سیکورٹی ڈپازٹ کی رقم کو مد نظر رکھتے ہوئے مقرر کیا جاتاہے۔اگر سیکورٹی ڈپازٹ کی رقم بینک کی فرمائش سے زائد ہوتو کرایہ کم رکھا جاتاہے، یوں اس میں سود کا عنصر بھی شامل ہوجاتا ہے۔ سیکورٹی ڈپازٹ کو پیشگی کرایہ بھی نہیں کہاجاسکتا کیونکہ یہ رقم وعدہ اجارہ کے موقع پر لی جاتی ہے جو کہ اسلامی بینکوں کے بقول معاہدہ نہیں ہے اور اجارہ قوانین کے مطابق پٹہ دہندہ کو پیشگی کرایہ کی وصولی کا حق معاہدہ اجارہ کے بعد ہی حاصل ہوتاہے۔لہذا سیکورٹی ڈپازٹ کی رقم کو پیشگی کرایہ قراردینا صحیح نہیں کیونکہ اس سے اسلامی بینکوں کے اس موقف کی نفی ہوتی ہے کہ اجارہ کا حتمی معاہدہ مطلوبہ چیز کی خریداری کے بعد ہوتا ہے۔ کلائنٹ کو وکیل بنانا کلائنٹ کو وکیل بنانے کا مطلب ہے کہ گویا بینک نے رقم دی اور رقم ہی واپس لی اور اس پر
Flag Counter