Maktaba Wahhabi

196 - 202
جسٹس علامہ عمر بن عبدالعزیز المترک رحمہ اللہ بھی اسی قول کے حق میں ہیں۔چنانچہ وہ مذکورہ بالا آراءاور ان کے دلائل کا تجزیہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔ ’’ کاغذی زر کے متعلق علماء کی آراء اور ہر ایک نقطہ نظر کا تنقیدی جائزہ لینے سے ہمیں ان کا قول راجح معلوم ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ نوٹ مستقل کرنسی ہے اور سونے چاندی کی طرح ان میں بھی سود کے احکام جاری ہوتے ہیں۔رہا سود اور تلف کی صورت میں ضمان کے مسائل میں ان پر مکمل طور پر سونے چاندی کے احکام کا اطلاق ہوتا ہے۔‘‘[1] دوسرے اقوال کی خرابیاں واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’دوسرے اقوال یا تو معاملات میں لوگوں کو مشکل میں ڈال دینگے یا لین دین کا دروازہ ہی بند کردینگے حالانکہ اس کے بغیر چارہ نہیں یا پھر سود کا دروازہ چوپٹ کھول دینگے اور نقدین کی زکوۃ ضائع کرنے کے حیلوں کا دروازہ کھولے گے۔‘‘[2] کاغذی کرنسی کا نصاب زکوۃ کاغذی نوٹ کو مستقل کرنسی قرار دینے سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر اس پر زکوۃ کس حیثیت سے عائد ہوگی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جب نوٹ سونے یا چاندی میں سے جس کے نصاب کی مالیت کم ہوکے برابر پہنچ جائیں تو ان پر زکوۃ واجب ہوگی کیونکہ اس طرح مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد پر زکوۃ واجب ہوگی جس سے فقراء و مساکین کو زیادہ فائدہ پہنچے گا۔سونے کا نصاب ساڑھے سات اور چاندی ساڑھے باون تولے ہے چونکہ سونے کے مقابلہ میں چاندی کے نصاب کی مالیت
Flag Counter