Maktaba Wahhabi

201 - 202
لَمْ تَفْتَرِقَا وَبَيْنَكُمَا شَيْءٌ»" ’’ میں بقیع جگہ پر اونٹ فروخت کرتا تھا تو کبھی دیناروں میں فروخت کرتا اور درہم وصول کرتا اورکبھی دراہم میں بیچتا لیکن دینار وصول پاتا یعنی دنانیر کی بجائے دراہم اور دراہم کی بجائے دنانیر لیتا تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔اس وقت آپ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر تھے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذرا ٹھرئیے میں آپ سے ایک مسئلہ پوچھنا چاہتا ہوں۔میں بقیع میں اونٹ بیچتا ہوں دینار کے ساتھ بیچ کردرہم اور درہم کے ساتھ بیچ کردینار سے وصولی پاتا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں بشرط یہ کہ اسی دن کے ریٹ کے مطابق ہو اور تمہارے درمیان اس طرح جدائی نہ ہو کہ کوئی لین دین باقی ہو۔‘‘[1] كرنسی میں بیع سلم معاصر معیشت میں بل آف ایکسچینج کا ڈسکاؤنٹ سود پر مبنی ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔بعض اسلامی بینکوں نے اس کا حل یہ ڈھونڈا ہے کہ بینک ڈسکاؤنٹ کی بجائے بیع سلم کی بنیاد پر معاملہ کرلے۔جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ بینک ہنڈی میں درج ڈالر کی مالیت کے برابر رقم حامل ہنڈی(Drawer) کو ڈالر کی پیشگی قیمت کے طور پر ادا کردیتا ہے اور یہ طے پاجاتا ہے کہ اس نے اتنی مدت بعد اتنے ڈالر بینک کے حوالے کرنے ہیں۔جب ہنڈی میچور ہوجاتی ہے اور حامل ہنڈی اس شخص جس کے نام ہنڈی ہو(Drawee) سے ڈالر وصول پالیتا ہے تو وہ بینک کے حوالے کردیتا ہے۔ظاہر ہے بینک اپنا کمیشن منہا کرکے ہی اس کو رقم ادا کرے گا اور جب وصولی کے بعد ڈالر آگے فروخت کرے گا تو پھر کمیشن وصول کرے گا،اور یہی کمیشن بینک کا منافع ہوتاہے۔
Flag Counter