Maktaba Wahhabi

209 - 202
کاری کی بھی حوصلہ شکنی ہوگی۔ بلکہ بعض ماہرین معیشت کے نزدیک اشاریہ بندی ایک طرح سے خود اپنے جلو میں افراط زر لے کر آتی ہے اور اس سے افراط زر کا ایک خود کار نظام جنم لیتا ہے یہی وجہ ہے جن ممالک نے یہ سکیم اختیار کی وہاں افراط زر کی شرح میں اضافہ تو ہوا ہے کمی واقع نہیں ہوئی۔ اسی طرح نظری لحاظ سے بھی اشاریہ بندی کی سکیم غلط ہے کیونکہ اشیاء و خدمات کی قیمتوں کا تعین زرکرتا ہے لیکن اشاریہ بندی میں دونوں ایک دوسرے کی قیمتوں کا تعین کرتے ہیں یعنی زر کی قیمت کا تعین اشیاء و خدمات اور اشیاء خدمات کی قیمتوں کا تعین زر کرتا ہے۔ امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے قول سے غلط استدلال اشاریہ بندی کے قائلین کی رائے میں دھاتی سکوں(فلوس) کے بارہ میں حضرت امام ابو یوسف رحمہ اللہ کا نقطہ نظر اشاریہ بندی سے ملتا جلتا ہے۔ اس کی تو توضیح یوں ہے کہ جب دھاتی سکوں کے ذریعے کوئی چیز ادھار خریدی جائے یا کسی کو یہ سکے قرض دئیے جائیں اور ادائیگی سے قبل سکوں کی قیمت کم ہوجائے تو جمہور فقہاء جن میں آئمہ اربعہ بھی شامل ہیں کے نزدیک جتنے سکے بطور قیمت بائع کے ذمے واجب ہوئے تھے یا جتنے سکے قرض گیرنے لیے تھے اتنے ہی واپس کرنا ہوں گے۔سکوں کی قوت خرید کمی بیشی کی وجہ سے ان کی تعداد میں کمی بیشی نہیں ہوگی۔اس کی دلیل یہ ہے کہ سکے اموال مثلیہ میں شامل ہیں یعنی ان کی اکائیوں میں فرق نہیں ہے اور اموال مثلیہ میں مقدار کا خیال رکھا جاتا ہے۔نہ کہ قیمت و مالیت کا۔ اس کے برعکس امام ابو یوسف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ادائیگی سکوں کی قیمت میں کمی بیشی ملحوظ رکھ کرکی جائے گی۔ان کا موقف یہ ہے کہ مذکورہ سکے دراصل دراہم کی ریز گاری ہے دس سکے ایک درہم کے مساوی ہیں یعنی ایک درہم کا دسواں حصہ ہے تو دس سکے قرض لینے کا مطلب ایک درہم قرض لینا ہے اب اگر ادائیگی سے قبل سکے کی درہم کے ساتھ نسبت تبدیل ہو جائے مثلاً ایک درہم میں گیارہ سکے قرار دے دئیے جائیں جس کو اصطلاح میں سکہ کی قیمت میں کمی سے تعبیر
Flag Counter