Maktaba Wahhabi

37 - 202
من البائع وتبقيته في منزل البائع لا يكون قبضاً شرعياً حتى ينقله المشتري إلى مكان لا اختصاص للبائع به " ’’اس سے پتا چلتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ منقولی چیز کو فروخت کنندہ سے وصول پانا اور اسے فروخت کنندہ کے ٹھکانے پر ہی رکھ چھوڑنا شرعی قبضہ نہیں ہے تاآنکہ خریدار اسے ایسی جگہ لے جائے جو فروخت کنندہ کے لیے مخصوص نہ ہو۔‘‘[1] ممانعت کا سبب نامورتابعی حضرت طاؤس رحمہ اللہ کہتے ہیں میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے قبضہ سے قبل فروخت کرنے کی ممانعت کا سبب پوچھا تو انھوں نے فرمایا: " ذاك دراهم بدراهم والطعام مرجاُ " ’’یہ درہم کے بدلے درہم کا لین دین ہے جبکہ غلہ وہیں پڑا ہوا ہے۔‘‘[2] یعنی سودی لین دین کے مشابہ ہونے کی بنا پر ناجائز ہے اس کی توضیح یوں ہے مثلاً خالد نے ایک لاکھ کی گندم خریدی اور وہاں سے منتقل کئے بغیر ایک لاکھ دس ہزار میں فروخت کردی تو گویا اس نے رقم دی اور رقم ہی لی اور اس پر نفع کمایا،عملی طور پر کوئی خدمت انجام نہیں دی۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے بھی اسی علت کی تحسین فرمائی ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں: " وهذا التعليل أجود ما علل به النهى،لأن الصحابة أعرف بمقاصد الرسول صلى اللّٰه عليه وآله وسلم " ’’ممانعت کی باقی وجوہ کی نسبت یہ وجہ بہترین ہے کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقاصد کو بہتر جانتے ہیں۔‘‘[3]
Flag Counter