Maktaba Wahhabi

43 - 202
تاہم اس استثناء کو فیوچر سودوں چسپاں نہیں کیا جا سکتاکیونکہ ان میں قبضہ کی مدت تین دن سے زائد ہوتی ہے اور یہ مدت باقاعدہ طے شدہ ہوتی ہے جبکہ مالکی فقہاء کے نزدیک بھی اگر عقد کے اندر یہ شرط ہو کہ قیمت تین دن کے بعد ادا کی جائے گی تو عقد ختم ہو جاتا ہے۔لہٰذا جو حضرات فیوچر سودوں کو بیع سلم پر قیاس کر کے جائز قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں ان کا موقف درست نہیں ہے۔ بعض حضرات یہ توجیہ کرتے ہیں کہ ایکسچینج انتظامیہ ادائیگی کی ذمہ دار ہوتی ہے اور برو کر کے پاس خریدار کے اکاؤنٹ میں رقم بھی موجود ہوتی ہے لہٰذا حکما یہی سمجھا جائے گا کہ ادائیگی ہو چکی ہے مگر یہ توجیہ صحیح نہیں۔ایک تو اس لیے کہ فروخت کنندہ کو عملا ادائیگی ضرروی ہے کسی تیسرے شخص کے پاس جمع کرا دینا کافی نہیں ہے۔ اور دوسرا اس لیے کہ عموماً برو کر کے پاس پوری رقم جمع نہیں کرائی جاتی بلکہ رقم کا کچھ حصہ جمع کرا کر خریداری شروع کر دی جاتی ہے جبکہ سلم میں مکمل ادائیگی لازمی ہے۔ سودی طریقے اختیار نہ کریں اصل میں تو سود اس فائدے کو کہا جاتاہے جو قرض کے مقابلہ میں شرط اور تعین کے ساتھ لیا جائے یا پھر اس اضافے کو کہتے ہیں جو بیع کے نتیجے میں واجب ہونے والی رقم کی ادائیگی میں تاخیر پر لیا جائے لیکن شریعت محمدی نے خریدو فروخت کی کچھ صورتوں کو بھی سودی کا روبار میں شمارکیا ہے یا سود کی راہ ہموار ہونے کے خدشہ سے انہیں بھی حرام قرار دیا ہے، لہٰذا ان صورتوں سے بھی دور رہنا چاہیے۔وہ صورتیں یہ ہیں۔ 1۔ہم جنس چیزوں کی کمی بیشی کے ساتھ اور ادھا تبادلہ:جب دو ہم جنس اشیاء مثلاً گندم کا گندم کے ساتھ تبادلہ کیا جارہا ہو تو اس میں ددشرطیں ضروری ہیں ایک تو دونوں طرف مقدار بالکل برابر ہو اور دوسرا مجلس میں لین دین نقد ونق‘‘د ہو۔چنانچہ اگر کسی طرف کمی بیشی پائی جائے یا دونوں یا کسی ایک طرف ادھار ہوتو یہ معاملہ رباالفضل’’اضافے والا سود‘‘ کہلاتا ہے جو کہ
Flag Counter