Maktaba Wahhabi

49 - 202
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درخت پر لگی کھجوروں کو خشک کھجورں کے بدلے بیچنے سے منع فرمایا اور کہا یہ سود ہے۔اس کو مزابنہ کہتے ہیں۔‘‘[1] حتی کہ اگر دونوں جانب کی مقدار معلوم ہو تب بھی تازہ اور خشک پھل کا باہم تبادلہ جائز نہیں کیونکہ تازہ پھل خشک ہونے پر کم ہو جاتا ہے۔چنانچہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں: " سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْأَلُ عَنِ اشْتِرَاءِ التَّمْرِ بِالرُّطَبِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَيَنْقُصُ الرُّطَبُ إِذَا يَبِسَ»؟ فَقَالُوا: نَعَمْ، «فَنَهَى عَنْ ذَلِكَ» " ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تازہ کھجوروں کے بدلے خشک کھجور کی بیع کے بارہ میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا تازہ کھجوریں خشک ہو کر کم ہو جاتی ہیں صحابہ نے کہا جی ہاں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا۔‘‘[2] بیع العینہ: سودی خریدو فروخت کی تیسری شکل بیع العینہ (Buy Back)ہے جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ فروخت کنندہ ایک چیز ادھار بیچ کر دوباہ کم قیمت پر نقد خریدلیتا ہے یا نقد خریدکر دوبارہ اسی شخص کوادھارزائد قیمت پر بیچ دیتا ہے۔یہ اصل میں سود لینے کا ایک حیلہ ہے کہ اگر آپ کسی کو سال کے لیے ایک ہزار روپیہ قرض دے کر بارہ سو لینا چاہتے ہیں تو اس کو ایک سال کے لیے کوئی چیز ادھار بارہ سو میں فروخت کردیں۔بعد ازاں اس سے وہی چیز نقد ایک ہزار میں خرید لیں تاکہ قرض کے خواہشمند کی ضرورت بھی پوری ہو جائے اور آپ کو بھی سال بعد بارہ سو مل جائیں۔چونکہ یہ سودی لین دین کی ہی ایک ہے جس میں چیز کو بطور حیلہ استعمال کیا جا تا ہےاس لیے حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
Flag Counter