Maktaba Wahhabi

51 - 202
خمسة عشر الي اجل" ’’وہ کسی تاجر کے پاس آکر قرض مانگے اور تاجر اس سے منافع کا مطالبہ کرے لیکن ساتھ ہی سود کا بھی خوف ہے۔چنانچہ تاجر اس کو دس کا کپڑا ادھارپندرہ میں فروخت کردیتا ہے۔پھر وہ وہی کپڑا بازار میں(نقد) دس کا بیچ دیتا ہے اور اس طرح اسے دس روپے حاصل ہو گئے تاہم بائع کے اس کے ذمے ادھارپندرہ ہیں۔‘‘[1] یہاں یہ امر نگاہ میں رہے کہ درمختار میں عینہ کی جس صورت کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ رقم کا ضرورت مند کوئی چیز ادھار مہنگے داموں خرید کر فروخت کنندہ کے علاوہ کسی تیسرے شخص کو نقد سستےداموں بیچ دے یہ صورت’’بيع التورق‘‘کہلاتی ہے جو صحیح رائے کے مطابق ناجائز ہے مگر بعض اسلامی بینکوں میں بھر پور طریقے سے اس کا استعمال جاری ہے۔ اسلامی بینکوں میں عموماً یہ طریقہ نقد سرمائے (Liquidity)کا انتظام کرنے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ جس بینک کو سرمائے کی ضرورت ہو وہ دوسرے بینک جس کے پاس اضافی سر مایہ موجود ہوتا ہے سے کوئی مخصوص چیز کچھ فیصد شرح منافع کے عوض مرابحہ کی بنیاد پر خرید لیتا ہے۔بعد میں بینک یہ چیز ایجنٹ کے ذریعے مارکیٹ میں فروخت کر کے اپنے ضرورت کے مطابق سر مایہ کر لیتا ہے۔یہ حقیقت میں رورق ہے جو حنفی فقہاء کے نزدیک بیع عینہ کی ایک شکل ہے مگر اسلامی بینک اعتراضات سے بچنے کے لیے اس کوMurabaha Reverse کا نام دے دیتے ہیں۔ 4۔قرض کی شرط پر خرید و فروخت : بیع کی ممنوعہ صورتوں میں سے ایک صورت قرض دینے کی شرط پر کوئی چیز بیچنا خریدنا یا قرض دینے کے بدلے خریدو فرخت کی شرط لگانا ہے۔ یہ صورت چونکہ اس خطرے سے خالی نہیں کہ قرض دہندہ اگرفروخت کنندہ ہے تو وہ بازار
Flag Counter