Maktaba Wahhabi

57 - 202
’’جب تول کردو تو جھکتا ہوا دو۔‘‘[1] قسمیں نہ کھائیں بعض تاجر اگر جھوٹی قسمیں کھاکر دھوکا دہی کے مرتکب ہوتے ہیں تو بعض گاہکوں کو مطمئن کرنے کے لیے بہت زیادہ قسمیں کھاتے ہیں، جھوٹی قسم تو بدترین گناہ ہے،روز قیامت اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا لیکن سچی قسم سے بھی پرہیز کرنا چاہیے۔چنانچہ حدیث کی مستند اور اعلیٰ ترین کی کتاب صحیح بخاری میں ایک عنوان یوں باندھا گیا ہے۔ " بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ الحَلِفِ فِي البَيْعِ" ’’خریدوفروخت میں قسمیں کھانامکروہ ہیں۔‘‘ شارح بخاری علامہ ابن حجر رحمہ اللہ اس کی شرح میں لکھتے ہیں: ’’ یہ کراہت مطلق ہے اگر قسم جھوٹی ہوگی تو مکروہ تحریمی اور اگر سچی ہوگی تو مکروہ تنزیہی ہوگی۔‘‘[2] یعنی سچی قسم سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔علامہ بدر الدین عینی رحمہ اللہ نے بھی یہی مطلب بیان کیاہے۔[3] ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق یہ عادت برکت کھودینے کا باعث ہے کیونکہ دنیاوی مفاد کے لیے اللہ تعالیٰ کے بابرکت نام کا استعمال غیر مناسب ہے اور بالآخر جب لوگ ایسے تاجر کی عادت سے واقف ہوجاتے ہیں۔تو پھر اس کی قسموں پر یقین نہیں کرتے یوں اس کی دکانداری خراب ہوتی ہے کیونکہ کاروبار اعتماد پر ہی چلتا ہے اور جب کسی تاجر کی ساکھ متأثر ہوتی ہے تو اس کی تجارت خسارے میں چلی جاتی ہے۔یہی وجہ ہے اسلام نے قسمیں کھا کر مال بیچنے سے منع کیاہے حضرت
Flag Counter