Maktaba Wahhabi

78 - 202
نقد اور ادھار قیمت میں فرق یہ امر تو طے ہے کہ خریدو فروخت جس طرح نقد جائز ہے ادھار بھی جائز ہے بشرطیکہ ادائیگی کی مدت معلوم ہو لیکن کیا ادھار کی صورت میں نقد کے مقابلہ میں زائد قیمت رکھنا جائز ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔جو قیمت پر گفتگو کرتے ہوئے پوری شدت کے ساتھ ابھر کر سامنے آتاہے کیونکہ عصر حاضر میں قسطوں پر لین دین کا رواج ہے اور اس میں ہمیشہ نقد کی نسبت زیادہ قیمت رکھی جاتی ہے۔بعض علماء اس کو ناجائز قراردیتے ہیں لیکن اگردلائل کی روشنی میں غور کیا جائے تو اس کی رائے صائب معلوم نہیں ہوتی۔یہی وجہ ہے بیشتر فقہاء محدثین ادھار کی وجہ سے قیمت میں اضافہ جائز سمجھتے ہیں، چنانچہ امام شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔ "قالت الشافعية والحنفية وزيد بن على والمؤيد باللّٰه والجمهور إنه يجوز لعموم الأدلة القاضية بجوازه وهو الظاهر" ’’شافعیہ، حنفیہ، زید بن علی، موید باللہ اور جمہور نے جواز کے عمومی دلائل کی بنا پر اسے جائز قرار دیا ہے اور ظاہر بھی یہی ہے۔‘‘[1] امام شوکانی رحمہ اللہ نے اس کے حق میں ایک رسالہ بھی لکھا ہے جس کا نام ہے۔ "شفاء الغليل في حكم زيادة الثمن لمجرد الأجل" اس رسالہ میں انھوں نے زیر بحث مسئلہ کے متعلق بڑی عمدہ تحقیق پیش فرمائی ہے چنانچہ وہ خود فرماتے ہیں۔ ’’ہم نے اس میں ایسی تحقیق پیش کی ہے جو ہم سے پہلے کسی نے نہیں کی۔‘‘[2] اہلحدیث اکابرعلماء سید میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ،نواب صدیق حسن خان، رحمہ اللہ مولانا ثناء اللہ
Flag Counter