Maktaba Wahhabi

113 - 545
اس کے ہاتھ میں دھوبیٹھے،اسے لازماً حلال کی تلاش میں رہنا چاہیے ،کہیں ایسا نہ ہو کہ جوچیز دفع ضرورت کے لیے وقتی طور پر جائز ہو گئی تھی اُسے سہل خیال کرتے ہوئے حلال کی تلاش اور جستجو ہی ختم کر بیٹھے۔ اسلام نے ضرورت کے موقعوں پر حرام کو مباح کر کے اپنے ماننے والوں کے لیے بڑی آسانی پیدا کردی ہے اور اس سے اللہ جل جلالہ کے ارشاد کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ: ﴿يُرِيد اللّٰه بِكُمْ الْيُسْر وَلَا يُرِيد بِكُمْ الْعُسْر[1] اللہ جل جلالہ تمھارے ساتھ آسانی کرنا چاہتا ہے سختی کرنا نہیں چاہتا۔ مجبوری کا تعین یہاں یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ وہ کونسی مجبوری ہے جس کے لیے اسلام نے حرام کھانے تک کی اجازت دے دی ہے اس رخصت کو اسلام نے آزادانہ طور پر نہیں چھوڑا بلکہ اُسے متعین اور مقید کیا ہے چنانچہ جس مجبوری پر سب کا اتفاق ہے وہ کھانے کی ایسی مجبوری ہے کہ بھوک سے جان جا رہی ہو بعض علماء نے اس کی تحدید اس طرح کی ہے کہ مجبوری کی حالت میں ایک شب و روز گزر جائے اور سوائے حرام غذا کے کوئی چیز کھانے کے لیے نہ ملے ایسی صورت میں مجبور شخص حرام غذا اس حد تک کھاسکتا ہے کہ ہلاکت سے بچ جائے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس کی حد یہ ہے کہ پیٹ بھر کھالے اور ضرورت کے بقدر سفر کے لیے ساتھ لے لے یہاں تک کہ کوئی جائز چیز کھانے کے لیے مل جائے۔ اور غالباً اللہ جل جلالہ کے ارشاد ﴿غَيْرَبَاغٍ وَلَا عَادٍ ﴾ سے یہی مترشح ہوتا ہے۔
Flag Counter