Maktaba Wahhabi

183 - 545
کر دوسرے لوگوں کو پھنسایا جاتا ہے تاکہ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ کسی طرح سے(کم ازکم) 4500روپے کی خریداری کر کے ممبربنیں اور پہلے ممبر کا نیٹ ورک ترقی کرے، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب یہ اسکیم نئی نئی متعارف ہوئی اور بندہ نے مسجد کے منبرسے اس کی مخالفت کا آغاز کیا تو جمعہ کے بعد اچھے اچھے شریف اور باشرع لوگ سامنے آئے اور انھوں نے گلشن اقبال میں واقع ایک معروف دینی درس گاہ کے بعض علماء اساتذہ کا نام لے کر کہا کہ وہ بھی اس اسکیم کے ممبر ہیں اگر یہ چیز ناجائز ہوتی تو وہ کیوں ممبر بنتے؟(اللہ ہمیں محفوظ فرمائے)۔ اگر نئے ممبر کسی طرح سے اس کے دام میں نہ آسکیں یا ممبر بننے کے بعد وہ کسی وجہ سے کنارہ کش ہو جائیں تو پہلے سے موجود ممبروں کو کمپنی کی طرف سے کوئی مالی فائدہ حاصل نہیں ہو گا کیونکہ کمپنی یہ کمیشن تب دے گی جب اسے فائدہ ہواہوگویا کمپنی اصل میں اپنے فائدے کو ترجیح دیتی ہے اور اتنی ترجیح دیتی ہے کہ جب تک پہلا ممبر تین ممبر نہ بنالے اسے کسی طرح کا کمیشن نہیں دیا جاتا۔ گولڈن کی اسکیم کی شرعی حیثیت 1۔مذکورہ کمپنی کے طریقہ کار کے بہت سے پہلو قابل غور ہیں لیکن ان میں دو پہلو خاص طور پر محل نظر ہیں ایک تو یہ ہے کہ کمپنی جب کوئی چیز فروخت کرتی ہے تو وہ اس کی جتنی چاہے قیمت وصول کر لے یہ الگ بات ہے اور اس کے جواز یا عدم جواز میں بحث کی گنجائش ہے مگر قیمت خریداری سے ہٹ کر1500روپے کی وہ اضافی رقم جو کمپنی اپنا کارڈ جاری کرنے کے نام پر ہرممبر سے وصول کرتی ہے یہ کس بنیاد پر وصول کی جاتی ہے؟ اگر کمپنی یہ کہے کہ یہ ممبر شپ کے کاغذات ہیں تو یہ صریح جھوٹ ہے کیونکہ اس کا سادہ کارڈ 15روپے میں بآسانی بن سکتا ہے پھر 1500روپے کیوں وصول
Flag Counter